عصرِ حاضر کی تمدنی ترقی کا دراصل انحصار تاریخی تواتر میں مضمر ہے،آج کی دنیا کی اقوام کی ترقی و استحکام سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے ترقی کی معراج حاصل کر لی ہو۔لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی بھی انسان نے کائنات کے سربستہ رازوں کی حقیقیت کو چھوا تک نہیں ہے۔ہاں البتہ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ انسان نے تعلیم کو وسیلہ بنا کر اپنی تمدنی زندگی کی معراج کو کافی حد تک پالیا ہے۔
لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ انسان وہ سب حاصل کرچکا جو کائنات کے پوشیدہ راز ہیں ،اس کے لئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔جب ہم قوموں کی ترقی و استحکام کی بات کرتے ہیںتو اس سے مراد وہ لائحہ عمل مراد لیتے ہیںجس کو اختیار کر کے تعلیم ایک طاقتور حرکیاتی عمل بن جاتی ہے،یہی مبسوط ومربوط راستہ اور لائحہ عمل نصاب کہلاتا ہے۔نصاب ایک ایسا حرکیاتی عمل ہے جس نے انسان کو غاروں سے نکال کر موجودہ عادات واطوار اور تمدنی اسلوب میں پہنچا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کیسا تعلیمی نصاب ہونا چاہئے کہ جس سے عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اخلاقی اقدار سے بھی ہمارا مضبوط اور مربوط رابطہ رہے۔اس سلسلہ میں پاکستان کے حصول کے بعد کے حالات و واقعات کا اگر مطالعہ کریں تو کسی حد تک تصویر صاف وشفاف دکھائی دیتی ہے جیسے کہ انتقالِ اقتدار کی تقریر میں مائونٹ بیٹن نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ نئی مملکت میں عدل و انصاف اور رواداری کی وہ روائتیں قائم کریں جو مغل بادشاہ اکبر نے قائم کی تھیں۔
جناح نے جوابی تقریر میں کہا کہ ’’عدل و انصاف اور روا داری کی روائتیں ہمیں اس سے بہت پہلے حضرت محمدؐ سے مل چکی ہیں۔ایک اورواقعہ اس طرح سے ہے کہ سردار شوکت حیات کہتے ہیں کہ جب قائد اعظم نے الفاروق (شبلی نعمانی) کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو فرمائش ظاہر کی کہ اس کی دوسری جلد بھی مجھے مہیا کی جائے،جب دوسری جلد بھی پڑھ چکے تو فرمانے لگے کہ یہ مغرب والے کیا نعرہ لگاتے پھرتے ہیں؟
فلاحی مملکت کا پہلا تصور تو بارہ سو سال قبل حضرت عمرِ فاروق ؑ نے دے دیا تھا۔مسلمانوں کے ملک میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے۔یہی وجہ ہے کی قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ایک پریس کانفرنس میں جب کسی صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا؟تو جناح نے بر جستہ جواب دیا کہ’’ہمارا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہو گا‘‘
قائد اعظم کے ان خیالات ونظریات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ملک پاکستان میں کیسا نظام تعلیم اور نصاب چاہتے تھے۔ان کی زندگی اگر وفا کرتی تو یقینا وہ اس سمت خاص توجہ فرماتے لیکن زیست کی بے وفائی نے ہم سے ایک ایسا راہنما چھین لیا جو صحیح معنوں میں ایک ایسی فلاحی مملکت ضرور چاہتے تھے جس کی بنیاد اخلاقیات،رواداری اور اسلامی نظریات سے ہٹ کر کبھی نہ ہو۔
اگر علم اقسام پرغور کریں تو ہردو طرح کے علوم یعنی علم ہدایات اور علم وقعی دونوں کی بنیادوں میں اخلاقیات کا فقدان تعلیمی تمدنی سماجی ومعاشرتی عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں۔لہذا اگر ہمارا ملک صحیح معنوں میں تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی معراج کا خواہاں ہے تو قرآن وسنت کا عملی اطلاق نصاب سازی میں از بس ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی قوم اپنی اخلاقی اقدار اور روایات کے بغیر کبھی بھی ترقی کا زینہ نہیں چڑھ سکتی۔
ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس اخلاقیات کا منبع قرآن وسنت کی صورت میں موجود ہے۔بس اس کے عملی اطلاق میں قانون ساز ی اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔وقعی علم اگرچہ تغیر پزیر ہوتا ہے زمانہ کے حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی جاتی ہے لیکن اخلاقیات ایسا مضمون ہے جو اپنی جڑوں کے بغیر کبھی پنپ نہیں پاتا اس لئے انسان جتنی بھی ترقی کی منازل طے کر لے وہ اپنی جڑوں سے کٹ کر کبھی بھی پرسکون زندگی نہیں گزار سکتا۔
اگرچہ اس علم کا انحصار عقل واستدلال،مشاہدات وتجربات پر ہے پھر بھی ،انسانی سکون اور تعلیمی ترقی میں استحکام اخلاقیات کے بغیر ممکن نہیں،کیونکہ اخلاقیات وہ حدود وقیود متعین کرتی ہے جس سے فرار دراصل انسان کو شتر بے مہار بنا ڈالتا ہے،اور شتر بے مہار یا تو جنگل کا رخ کرلیتا ہے یا پھر اسے مار دیا جاتا ہے۔ایسے ہی بنا اخلاقی اصولوں پر عملداری انسان وحشی تو ہو سکتا ہے امن ا آشتی کا پیامبر نہیں۔
ہماری حکومتوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے اسلامیات اور اخلاقیات کو بطور سبجیکٹ اتی اہمیت نہیں دی جتنی کہ سائنسز کو،کہ ایک خاص طبقہ نے ہمیں اس راستہ پر لگا دیا کہ قوموں کی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے کہ جدید تعلیم کے حصول کو ممکن بنائیں،اس کی ایک مثال اگر پیش کروں کہ جس ملک کو اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا اور اس بات کی مثالیں دیتے ہم نہیں تھکتے کہ دنیا کے نقشے پر پہلا ایسا ملک ہے جسے مذہب کے نام پہ حاصل کیا گیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس مذہب کا قانونی واخلاقی طور پر اطلاق کس حد تک کیا گیا،ہم نے تو اسلامیات اور عربی کو بطور لازمی مضمون آئین 1973 میں شامل کیا۔اس سے بڑی اور کیا آلکسی اور فرار ہو سکتا ہے۔لیکن اس سے بھی جو اہم بات ہے وہ ہماری اسلامی واخلاقی تربیت کا فقدان ہے۔مجھے یاد ہے کہ بڑوں سے کیسے پیش آنا ہے،سلام کیسے کرنا ہے،بیٹھنا کیسے ہے،بزرگوں اور اساتذہ کا خاندان اور معاشرہ میں کیا مقام ورتبہ ہے،ماں باپ کی کیا قدر ومنزلت اور خاندانی اہمیت ہے۔
یہ سب ایک بچہ کو اس کی اوائل عمری میں ہی سکھا دئے جاتے تھے کہ جب بچہ سکول میں جائے تو اس کی اخلاقی اقدار ہی اس کے خاندانی پس منظر کی دلیل ہو۔محمود ہاشمی کا خوبصورت شعر یاد آگیا کہ ؎
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب بات کرنے سے قبیلہ کا پتہ چلتا ہے
شائد اسی بنا پر ایک مغربی مفکر نے کہا ہوگا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہتر قوم دونگا‘‘ایسے خیالات کا اظہار ایک اور مغربی فلاسفر نے بھی کیا تھا کہ’’تم مجھے مائوں کی گود کے سال دے دو میں تمہیں ترقی یافتہ قوم دونگا‘‘۔لیکن ہمیں کسی مغربی افکار ونظریات سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے آقا ؐ نے ہمیں پندرہ سو سال قبل قرآن وسنت کی شکل میں مکمل ضابطہ اخلاق فراہم کردیا ہے،بس اس کے عملی اطلاق کا فقدان ہے۔
وگرنہ ہماری تو یہ تاریخ رہی ہے کہ والدہ اگر حافظہ ہے تو اس کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ بھی حافظ ہی ہوا کرتا تھا۔کیونکہ صرف ان کے سینوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس کا عملی اطلاق ان کی زندگیوں سے عیاں ہوتا تھا۔آج ہم اپنی ہی اخلاقی اقدار کا اپنے ہی ہاتھوں گلہ گھونٹنے کے درپے ہیں کہ ہمارا بچہ اگر کانونٹ سکول میں نہیں پڑھے گا تو خاندان اور معاشرہ میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔
اخلاقی اقدار کے حامل اداروں اور بچوں کو ہم نے جاہل اور پینڈو قرار دیا ہو اہے،جس میں سب سے بڑا دوش ان ماں باپ کا ہے جو نام نہاد لبرل ازم کے پیچھے لگ کر اپنے بچوں میں اخلاقی گراوٹ کو ہوا دے رہے ہیں۔میں یہ بات پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اخلاقی اقدار کا سائنسز یا معاشرتی اسٹیٹس کو کبھی متاثر نہیں کرے گا۔اخلاقیات کا تعلق تو براہ راست ہماری معاشرتی زندگی سے ہے نا کہ معاشی زندگی سے۔
یہ ایک ایسی خوبی ضرور ہے جو آپ کی معاشی آسودگی میں ممدومعاون تو ہو سکتی ہے مگر رکاوٹ نہیں۔لہذا ہمیں اپنی خاندانی روایات میں اخلاقیات کو جگہ دینا ہوگی جبکہ حکومت وقت کو اسے نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اطلاق کی طرف بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی تب کہیں جا کر ہم تعلیمی واخلاقی ترقی کی معراج کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔