دور جدید کی سائنسی ایجادات نے سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کو ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ہے، اورتیز ترین حالات زندگی نے انسان کو دکھ، غم، پریشانی، عدم تحفظ کا احساس دے کر خوشیاں چھین لی ہیں۔ بیشتر لوگ موجو دہ طرز زندگی اور اس کے روز و شب سے خوش نہیں۔ حالانکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سہولیات میں اضافہ ہورہا ہے،آج ہمیں پچھلی نسلوں کی نسبت امراض کی تشخیص کی بہتر سہولیات میسر ہیں اورہم میڈیسن میں جدید تحقیقات کے ثمرات سے بہتر طور پرمستفید ہورہے ہیں، یہ یقینا ً ایک رحمت ہے لیکن اس کے باوجود ہم خوشی اور صحت کے اس فیض رساں تعلق سے محروم ہیں جس سے ہمارے آباؤاجداد مالامال تھے۔
جب ہم مغموم یا ناخوش ہوتے ہیں تو اس کا اثر ہماری زندگی اور تعلقات پر بھی پڑتا ہے ، کچھ غم وقتی ہوتے ہیں مثلاً کاروبار میں نقصان ،کسی پیارے کی موت،کسی کی بےجا تنقید و اعتراض وغیرہ جبکہ کچھ دکھ مستقل ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا حل ہمارے پاس نہیں ، اور کچھ غم ان خواہشات کے بھی ہوتے ہیںجو کہ پوری نہ ہو سکی ہوں۔ خوشی ہماری صحت کے لئے اچھی ہی نہیں بہت ضروری بھی ہے۔خوش رہنے والے لوگوں کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اورایسے لوگ زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔
خوشی لوگوں کے دلوں میں وسعت پیدا کرتی ہے ،طمانیت کا احساس بیدار کرتی اور تکالیف سے گزرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ دیگر انسانوں سے تعلقات میں بہتری لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جبکہ ناخوشی ہماری صلاحیتوں، ہمارے کام کرنے کے جذبے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ ہمارے اندر زندہ رہنے کی خواہش کو ختم کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوشی کیا ہے؟ یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کیا از خود خوش رہنا ممکن ہے ؟
درحقیقت خوشی ایسے خوش کن ذہنی جذبات و کیفیات کا نام ہے جس میں طبیعت میں مثبت اور خوشگوارجذبات جنم لیتے ہوں۔ ماہرین نفسیات خوشی کو چار درجوں یا سطحوں میں تقسیم کرتے ہیں، پہلی سطح وہ ہے جس میں یہ مادی اشیاء سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری وہ خوشی جو کسی مقابلے میں فاتح ہونے کے نتیجے میں ملتی ہے۔تیسری اچھے کاموں کی وجہ سے اور آخری خوشی جو کامل ہے اندر کی خوشی کہلاتی ہے۔
عارضی خوشی کا حصول آسان ہے جوکہ عام طور پر مادی خواہشات ،نفسیاتی، ذہنی و جسمانی فائدے سے حاصل ہوتی ہے مثلاً بہتر کھانا پکانا یا ڈانس کرنا وغیرہ جو کہ قطعاً وقتی اور عارضی ہے ، جسے محض تسکین کہا جاسکتا ہے۔جبکہ خوشی کی دوسری قسم مستقل خوشی ہے ، جوکہ اطمینان قلب، نیکیاں کرنے ، نفس کے تزکیے،گناہوں سے توبہ کرنے، اور عبادت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے، جوکہ دیرپا اور بعض اوقات تو دائمی ہوتی ہے ، اور ذہنی سکون کے علاوہ آسودگی کا باعث بنتی ہے۔
بلاشبہ خوش مزاج لوگ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور رشتوں کو بہتر اور کامیاب انداز میں نبھاتے ہیں۔ جن لوگوں میںغموں سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے وہ مشکل صورت حال میں اچانک گھبرا جاتے ہیں اور حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسی صورت حال میں ایک لمحے کیلئے رکتے ہیں، چیلنج کی نوعیت اور اس کے حجم کا جائزہ لیتے ہیں ،اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس کاتقابل کرتے ہیں اورپھر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کا جزوی یا کلی طور پر مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔یہ لوگ یا توپیدائشی طورپر اندر سے مضبوط ہوتے ہیں یا وقت کے ساتھ ساتھ مہارتیں سیکھ چکے ہوتے ہیں۔
خوشی درحقیقت روحانی کیفیت کا نام ہے ،کہا جاتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ روح اگر مطمئن اور پرسکون ہو تو جسم اور دماغ بھی پرسکون اور خوش رہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے خوش کیوںرہتے ہیں؟ کیونکہ وہ بڑوں کی طرح کینہ اوربغض نہیں پالتے، ابھی لڑے تو اگلے ہی لمحے باہم شیروشکر ہوگئے۔ اگر یہی چیز بڑے بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیںتو وہ خوش رہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر اپنی زندگی گزارے اور اگر زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت اور اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بنالے تو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ صبر،شکر،امید قناعت،وغیرہ پر عمل پیرا ہوکر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول میں خوشی محسوس کرتا ہے۔خالق کائنات مالک حقیقی معبود برحق اللہ جل جلالہ بھی انسان کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں ،اور جب انسان اپنے قول و فعل اور عمل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو اس پر وہ مطمئن رہتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اسے نہ خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔ اور ایسا فرد جسے اطمینان قلب حاصل ہو جائے وہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔ خوشی اور صحت کے درمیان موجودناگزیر تعلق سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ انسانی معاشرے عفو درگزر دردمندی،محبت،مہربانی،دیانت داری،فیاضی اورانصاف جیسی اقدار پراتنا زور کیوں دیتے ہیں۔یہ اقدار انتقام اور نفرت جیسے ان جذبوں کا تریاق ہیں جوانسانی سوچ کو منفی انداز سے متاثر کرتے اور خوشی کے امکانات کو ختم کرتے ہیں۔
بددیانتی اور ناانصافی کا ارتکاب انسانوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس متاثرہ افراد کی طرف سے معاف کر دینے کا عمل افراد کے درمیان محبت اور احترام کی بنیاد پر اعلیٰ ترین سطح پر تعلقات کو قائم کرتا اور انہیں جلا بخشتا ہے۔ اسی طرح ایثار کے ساتھ ساتھ دوسروں کے درد کو محسوس کرنا اور ان کے ساتھ رحمدلی سے پیش آناجہاں انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرتا ہے وہاں راحت قلب اور حقیقی خوشی کا باعث بنتا ہے۔