دائرہ علم وادب پاکستان نے’’کل پاکستان اہل قلم کانفرنس‘‘سات اور آٹھ مارچ ،غزالی گروپ آف سکولز، کالجز اینڈ ہاسٹلز پھالیہ( پنجاب) کے اشتراک سے، اُس کے پھالیہ کمپاوئنڈ میں منعقد کی۔ دوسرے احباب کی طرح ہمیں بھی دائرہ علم و ادب کے صدر جناب احمد حاطب صدیقی کی طرف سے دعوت نامہ ملاتھا۔جس میں شرکت کی تصدیق کا کہا گیاتاکہ اُسی حساب سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جا سکے ۔
ہم نے پہلے واٹس ایپ اور پھر ٹیلیفون پر اپنی شرکت کی تصدیق کر ادی۔سات مارچ کو جی نائین اسلام آباد سے ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ،پشاور،کشمیر اور اِرد گرد کے اہل قلم صاحبان پھالیہ کے لیے ایک کوسٹر سے ، پروگرام کے منتظم اور امیر سفر، جناب احسن حامد سیکرٹیری دائرہ علم و ادب ، شعبہ اطفال پاکستان روانہ ہوئے۔ شام سے پہلے غزالی تعلیمی ٹرسٹ کے سکولز ، کالجزاینڈ ہاسٹلز کمپائونڈ پھالیہ میں پہنچے۔
دو بجے سے چار بجے تک آمد اور رجسٹریشن کا وقت تھا۔وہاں اسلام آباد کے علاوہ کراچی ،کوئٹہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں سے اہل قلم حضرات پہلے ہی تشریف لا چکے تھے۔ انتظامیہ کے افراد نے آ نے والوں کو ان کی رہائش گاہوں سے روشناس کرایا۔ ہاسٹل کے میس میں ظہرانے کے لیے بلایا گیا۔ اس کے بعد کانفرنس ہال پہنچنے کا کہا گیا۔
غزالی ٹرسٹ کے کانفرنس ہال میں افتتاحی اجلاس جناب محمد ضیغم مغیرہ سرپرست دائرہ علم وادب پاکستان کی صدارت میں ہوا۔تلاوت قرآن پاک اور نعت رسولؐ مقبول کے بعد دائرہ علم و ادب پاکستان کا تعارف اور کانفرنس کی غرض و غایت ،مرکزی صدرجناب احمد حاطب صدیقی نے پیش کی۔ دائرہ علم و ادب کا تاسیسی اجلاس گذشتہ سال اکیڈمی ادبیات اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا(راقم بھی اس میں شریک ہوا تھا)۔
درویش صفت جناب ڈاکٹر افتخار کھوکھر کی سوچ اور پہل پر، دائرہ علم و ادب پاکستان وجود میں آیا۔ ڈاکٹر پروفیسر انیس احمد صاحب رفاء انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر کو سرپرست اعلیٰ کی درخواست کی گئی جسے انہوں نے قبول کیا۔ اس کے بعد پورے پاکستان میں اس کی تنظیم مکمل کی گئی۔
دائرہ علم و ادب نے پورے پاکستان میں پروگرام منعقد کیے، جس میں مشاعرے، میری کتاب بیتی ، کتابوں کی رونماہی ،سیرت کی کتب پر صدارتی انعام یافتہ حضرات کا تعارفی پروگرام اور بچوں کے پروگرام وغیرہ شامل ہیں۔ موجودہ کل پاکستان اہل علم و ادب کانفرنس بھی اسی کی کڑی ہے۔ دائرہ علم و ادب تعمیری اور تخلیقی ادب کے لیے بنایا گیا ہے۔ اپنی شاندار تہذیب کی حفاظت اور اسلاف کے کارنامے اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہے۔
اس کے بعد جناب ڈاکٹر محمدساجد مرزا ،پرنسپل لائربیرین اسلامک ریسرچ انسیٹیویٹ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی فیصل مسجد اسلام آبادکمپس نے علم و ادب کے تحقیقی میدان میں آن لائن جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے اور نیٹ پر اپنا مطلوبہ مواد تلاش کرنے کے مختلف طریقوں سے حاضرین کو روشناس کرایا۔ اس سے حاضرین کو بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔ اس کاوش کو بہت ہی پسند کیا۔ سوال جواب کا سیشن کے بعد نماز مغرب کا وقفہ ہوا۔
نماز مغرب کے بعد مسجد قرطبہ پر علامہ اقبالؒ کی مشہور و معروف نظم کی’’ سمعی و بصری تفہیم ‘‘پر جناب عبید اللہ کیہر، صدر، دائرہ علم و ادب اسلام آباد نے اپنی بنائی گئی فلم کے ذریعے سے پیش کیا۔ بنیادی طور عبید اللہ کیہر انجینئر، مصنف، سیاح اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔انہوں نے علامہ اقبالؒ کی شاعری پر اس قسم کی کئی فلمیں بنا کر اپنی یوٹیوب ٹی وی چینل پر پوسٹ کی ہوئی ہیں ۔ اس خوب صورت فلم کو دیکھ کر حاضرین محظوظ ہوئے اور اپنی عظیم لشان تاریخ کی بربادی کی کہانی پر آنسو بھی بہائے ۔ اس کے بعد وقفہ برائے نمازعشاء اور عشائیہ ہوا۔
اگلا پروگرام’’ کل پاکستان محفل مشاہرہ‘‘ تھا۔اس مشاعرے کی صدارت منفرد شاعر ، ادیب درجنوں کتابوںکے مصنف اور شاعری میں نئی نئی صنف ایجاد کرنے والے جناب’’ جان کاشمیری‘‘ نے اپنا کلام پڑھ کر کی۔مہمانان خصوصی جناب شاہ نواز فاروقی، مصنف شاعر، صحافی اور کالم نگار اور دائرہ علم ادب کے مرکزی صدر احمد حاطب صدیقی، مصنف،شاعر اوربچوں کے تخلیقی ادب کے ماہر نے کی۔
ملک بھرسے آئے ہوئے شعرا حضرات نے اپنا اپنا کلام سنایا۔ سامعین سے کھل کر داد حاصل کی دی۔ راقم نے بھی کشمیر کے مظالم پر چند اشعار پیش کیے۔ رات گئے مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔ آٹھ مارچ دوسرے دن کے پروگرام مقامی شادی حال ’’پھالیہ جم خانہ‘‘ میں ہوئے۔جناب عبید اللہ کیہر نے آج کے پہلے پروگرام’’ تعمیری ادب‘‘ کی صدارت کی۔
جناب شاہ نواز فاروقی نے اپنے خصوصی خطاب میں تعمیری ادب پر سیر حاصل گفتگو کی۔ کہا ادب بغیر تقویٰ کے بے کار ہے۔تقویٰ اور علم کی بنیاد پر مسلمانوں نے تعمیری ادب تخلیق کیاتھا جس کی وجہ سے انہیں عروج ملا۔مغربی مفکر رابرٹ نے کہا تھا کہ مسلم مفکرین کی بنیادی تحقیقات سے فاہدہ اُٹھا کر مغرب نے ترقی کی منازل طے کیں۔یہ غلط ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا۔ اسلام تقویٰ کی بنیاد پر اپنے تعمیری علم و ادب کی بدولت پھیلا۔اس کی زندہ مثال انڈونیشیا، ملیشیا اور ارد گرد کے علاقے ہیں، جہاں کوئی مسلم حملہ آور نہیں گیا۔
اس کے بعد پروگرام’’مذاکرہ:تعمیری ادب‘‘زیر نظامت احمد حاطب صدیقی منعقد ہوا۔ جس کی صدارت جناب ڈاکٹر سفیر اختر نے کی۔ اس میں شریک حضرات میں جناب ضیغم مغیرہ،جناب تسنیم الحق فاروقی ڈاکٹر اختر حسین عزمی اور نسیم احمد فاروقی شریک تھے۔مقریرین نے اپنی خطاب میں کہا کہ آنے والی نسل، پچھلی نسل کے مشاہدے سے فاہدہ اُٹھاتی ہے۔نئے لکھنے والے اثاثہ ہیں۔مولانا موددیؒ صاحب اسلوب نثر نگار تھے۔
علامہ اقبال ؒنے اپنی شاعری کے ذریعے محکوم امت کو اُٹھایا۔ ادیبوں کو مولانا موددیؒ کی نثر اور اقبالؒ کی شاعری سے رہنمائی لینا چاہیے۔زبان کوئی نہیں پڑھتا ۔ادیب بن کر نہ لکھیں بلکہ قاری بن کر لکھیں۔اُردو رسم الخط کو بچانے کی کوششیں کرنی چاہییں۔ اس کے بعد اُردو کے حق میں قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ اُردو کو سرکاری زبان کا فیصلہ تو پاکستان کے ہر آئین کے اندر موجود ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ حکومت کو اپنے ہر محکمے میں اُردو کے مکمل نفاذ کے عملی اقدام کرنے چاہییں۔ اس کے بعد سیمینار:’’تعمیری ادب کا فروغ ‘‘جناب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی صدارت میں ہوا۔ اس پروگرام میں مقررین نے تعمیری اور تخلیقی ادب کے فروغ کے مختلف طریقوں پر اپنی تقاریر کے ذریعے میں حاضرین کو مستفیض کیا۔
اگلا پروگرام مجلس مذاکرہ:’’ بچوں کا ادب اور عصری تقاضے‘‘ تھا۔ یہ پروگرام جناب محمد ریاض عادل مرکزی سیکرٹیری داہرہ علم و ادب پاکستان کی نظامت میں ہوا۔اس میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے بچوں کے ادب کے تخلیق کار، بچوں کے رسالے نکالنے والے، بچوں کو مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے طریقے اور گھریلو لائبریریاں قائم کرنے پرایک ایک کر کے اپنے تجربات سامعین کے سامنے پیش کیے۔ یہ معلومات جدید طریقوں پر مشتمل تھیں جنہیں بہت پسند کیا گیا اور تالیں بجا کر پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
آخری دن کے آخری پروگرام میں شرکاء کو کل پاکستان اہل قلم کانفرنس پر اپنے تاثرات پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ مقریرین نے مہمان نوازی اور پروگرام کے معیار کی دل کھول کر تعریف کی۔ انتظامیہ کی طرف سے پروگرام میں شریک تمام اہل قلم کو یادگاری بیگ کا تحفہ دیا گیا۔ چیدہ چیدہ حضرات کو ٹرافیاں اور تمام شرکاء کو سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔
تمام شرکاء میں محمد ضیغم مغیرہ صاحب، سرپرست دائرہ علم و ادب پاکستان کی دو کتابیں،ایک شہری مجموعہ’’ خمار‘‘ اور دوسری بچوں کے ادب پر کتاب’’ناموری سے پہلے‘‘ تحفے میں پیش کی گئیں۔ اس کے بعد حاضرین پھالیہ جم خانہ میں ہی ظہرانے شریک میں ہوئے۔ مغرب سے کچھ منٹ پہلے ’’کل پاکستان اہل قلم کانفرنس‘‘ کا اختتام جناب ضیغم مغیرہ کی دعا پر ہوا۔ شرکاء اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔ ہم بھی کل جس کوسٹر کے ذریعے پھالیہ آئے تھے اُسی میں بیٹھ کراسلام آباد اپنے گھروں کوذریعے روانہ ہوئے۔