امریکا اور چین کے درمیان فائیوجی ٹیکنالوجی اور دنیا کے وائرلیس انفرااسٹرکچر پر کنٹرول کی لڑائی جاری ہے لہذا امریکا جو اس وقت سپر پاور ہے کسی کو کیونکر اپنے مساوی کے طور پر برداشت کر سکتا ہے،امریکا کا چین کے خلاف بغض بھی بے جا نہیں ہے کیونکہ ایسی تمام معدنیات جو ڈیجیٹل معیشت کے لئے نہایت ضروری ہیں اور جوکہ دنیا کے چند ممالک ہی میں پائی جاتی ہیں پر چین کو مکمل دسترس حاصل ہے۔
یہ دسترس کس طرح حاصل ہوئی یہ ایک علیحدہ بحث ہے،اور یہ ایسی معدنیات ہیں جس کے بغیر کوئی بھی نیا فون,سیٹلائیٹ,گاڑی اور مخصوص ڈیجیٹل چیزیں نہیں بن سکتیں،اور تو اور چین نے اپنے تیرہویں پانچ سالہ منصوبے (2016/2020)کو دھاتوں کی صنعت کی فیصلہ کن جنگ کا دور کہا ہے۔
جس منصوبے کا حصہ Made in China 2025 بھی ہے جس کا مقصد دفاعی,سائنسی,ٹیکنالوجی کی صنعت کی بڑھوتری ہے۔
لہذا اس سب کے باوجود بھلا کوئی سپر پاور اپنا موجودہ مقام کھونے کے لئے آخر کس قدر سکوت اور سکون میں رہ سکتا ہے….؟
لہذا اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس میں ورلڈ سپر پاور کا ہاتھ ہے اور اس پروپیگنڈے کے پیچھے امریکا و چین کا ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی ارتقائی دوڑ ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں, امریکا نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔
چینی معاشی استحکام کو غیر مستحکم کرنا اور اپنے لئے سرمایا کاری کی ایک نئی راہ ہموار کرنا لیکن چین نے بھی اس وائرس کا بڑی خوش اسلوبی سے مقابلہ کیا ہے اور کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ متاثرہ ممالک کی مدد میں بھی پیش پیش ہے,
اور اس وقت امریکا کا طرز عمل کچھ یوں ہے ؎
“پہلے اُس نے اک وبا چاروں طرف تقسیم کی
پھر کَہا اِکسیر جس کو چاہیے مجھ سے لے”