بزرٹا لائین میں ہمارا گھر تھا بچپن ہم نے وہیں گزارا ۔ دو بڑے بڑے کمرے دونوںطرف دالان اور تقریباً 8، 8سیڑھیاں ایک طرف بڑا سا میدا ن جس کے کنارے دوکانیں ، راشن شاپ تھے ۔ براندوں میں جعفری لگی ہوئی تھی جس میں سے امی ہمیں دیکھ لیتی تھیں کہ دکان پر ہو یا کہاں ہو ،کافی دور تک نظر آتا تھا۔ دوسری طرف گھر کے دوبڑے بڑے پل تھے نہ جانے کیوں؟
سڑک جناح ہسپتال تک جاتی تھی درمیان میں کچی آبادی والوں کے لئے نلکے لگے ہوئے تھے جہاں مٹکوں ڈرموں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں ۔ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں بڑا سا میدان بھی تھا جہاں ہم سائیکل چلاتے تھے اور پہاڑی تھی جس پر ہسپتال کا باورچی خانہ ہوتا تھا ۔ ہم سارے بہن بھائی بہت خوش تھے کہ ہم امیر ہیں کواٹر میں ، وہ بھی گورنمنٹ کے کواٹر میں رہتے ہیں جہاں بجلی پانی سب ہے ۔
ابو سائیکل پر آفس جاتے تھے ۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے تو سو سائٹی آفس کے قریب والے اپنے مکان میں آگئے وجہ معلوم نہیں یہ اپنا یعنی ابا کا ذاتی گھر تھا اور ہم اس مکان میں رہنے لگے اسکول بہت دور پھر کالج بھی بہت دور تھا پیدل جاتے آتے تھے، دن پر لگا کر اڑ گئے ۔ وہیں ہم ساتوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوئیں ۔ چار بہنوں اور ایک بھائی کی شادی ہو ئی پھر اچانک ابا جان گذر گئے ۔
مجھے ابا نے بی ایڈ کرنے کے باوجود نوکری کی اجازت نہ دی کہ شادی کے بعد اپنے گھر والوں کی اجازت سے نو کری کرنا اس وقت اتنی عقل نہ تھی سوچا شاید وہی میرا گھر ہو گا ؟ یہ تو ابا کا مکان ہے ۔ میرے ایک بھائی ذرا ٹربلنگ تھے نخریلے ، ضدی اور ماں باپ کے چہیتے کیونکہ ماں باپ کی ہمدردیاں ان کے باولے پن اور جسمانی تعلیمی معاشی کمی کی باعث شاید زیادہ تھیں ۔
بہر حال وہ بھائی صا حب نہ سدھرے ماں باپ دنیا سدھار گئے ۔ پھر ابا کامکان بڑے بھائی جان نے لاگت لگوا کر لے لیا اور سب کو بروقت حصے دے دیئے ۔ منجھلے بھائی صاحب کی شادی ناکام رہی اور وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ زبردستی رہنے لگے بمع وہ اپنے ضدی مسائل کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نیک ہدایت دے جو ابھی بھی سکون میں نہیں ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ ہمارا گھر یہ تھوڑی ہے ۔ ہم تو اپنے گھر میں ٹھاٹ سے رہیں گے ۔ مطلب نہ جانے انکے گھر کا ان کے ذہن میں کیا تصور ہے اور وہ کب پورا ہو گا ۔
اگر چہ بھائی اور انکے اہل خانہ کے ساتھ اچھی طرح رہتے ہیں مگر پھر بھی ناقدری پر تلے ہوئے ہیں سب اپنے اپنے سسرالوں میں نہیں رہیں ماشاء اللہ اپنی سکت کے مطابق نبھاتی رہیں ۔ آہستہ آہستہ سسرالیوں میں بھی تقسیم در تقسیم کے سلسلے ، مسائل کا شکار رہے کہنے کو سب لوگ اب اپنے مکانوں میں مطلب شوہروں کے ذاتی مکانوں میں مگر باپ دادا کی جائیدادوں اور وراثتوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے رشتوں میں کینسر پھیلا ہوا ہے ۔
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون نہیں ، ایمان نہیں ، قدر دانی نہیں اور محبت و مودت نہیں ۔ ہر بندہ آزاد اپنی دنیا میں مست رہنا چاہتا ہے مگر اس دنیا کو جو اس کا ذاتی مکان ہے سرکاری طور پر کسی کو محنت سے ملا کسی کو حق ما ر کر ملا ، کوئی دغا دے گیا ، کوئی حق نبھا نہ سکا اور کوئی بے بس رہا مگر پھر بھی میرے تجربے میں ہر بندہ بے گھر ہے ۔ ابھی بھی سب کو سب کچھ مل رہا ہے ۔ الحمد للہ کھانے پینے کی کمی نہیں جگہ کا مسئلہ نہیں مگر دلوں کا ٹیڑھ ، ضد اور انا کی مار کھا تے ہیں
سارے ہی لوگ مجھے بے گھر نظر آرہے ہیں جن میں سے ایک تقریباً 90 سالہ آنکھوں کی بینائی سے محروم محترمہ ہیں جو اپنے دیور کے گھر رہتی ہیں کیونکہ سسرالی مکان میں انہوں نے منجھلے دیور کے بیٹے بہو کے غیر اخلاقی سلوک کی وجہ سے رہنا پسند نہیں کیا اور چھوٹے دیور پر حق جتا کر وہا ں آگئیں ایک بڑی بہن یعنی انکی مطلقہ نند بھی ان کے ساتھ چھوٹے بھائی کے ہاں آگئیں ان کامعصوم بینائی سے محروم ایک بیٹا بھی جو ایب نارمل تھا گذر چکا اسکے تین سال بعد وہ محترمہ مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو گئیں ۔
مگر بہر حال وہ اپنے دیور کے گھر ہیں ۔ ہم سے جو بن پڑا ہم کر رہے ہیں مگر انکی طبعیت بدستور بگڑتی جا رہی ہے وہ پھیری ہوئی عمر کو پہنچی ہو ئی ہیں کبھی کبھی گذشتہ زمانے میں چلی جاتی ہیں ۔ مر حوموں سے باتیں کرتے ہیں ۔ اکثر خود باتیں کرتی ہیں جیسے کسی کے جوابات دے رہی ہوں ۔ باقی کھانے پینے گرمی سردی چائے پانی دوا ئی کا اپنا مکمل نظام صحت کے ساتھ متعلقہ لوگوں یعنی نند اور بھاوج کے ساتھ حق جتا نے ہوئے چلا رہی ہیں مگر پھر بھی کبھی کبھی پٹری سے اکھڑ جاتی ہیں ۔ کسی کی نہیں سنتی ۔ ڈاکٹری علاج جاری ہے خود چل نہیں سکتیں مگر پھر بھی مرضی اپنی چلاتی ہیں ۔
پچاس سال چالیس سال پہلے کی باتیں کر رہی ہیں کہ مجھے میرے گھر میں میرے کمرے میں لے کر جائو میں یہاں نہیں سو ئوں گی ۔ گیٹ میں سے گزار کر دروازے سے گزار کر لے کر جائو ۔ اب انہیں کیسے بتا ئیں کہ وہ مکان اب ہے ہی نہیں ۔ دو مرتبہ مکان بدل کر اب یہ تیسرے مکان میں چھ سال سے رہ رہی ہیں مگر وہی بات کہ یہ ان کا گھر نہیں بقول انکے ہم بھی یہی سوچتے ہیں کہ شاید یہ ہمارا بھی گھر نہیں مکان ہے کیونکہ مرضی تو ہماری بھی بس اتنی ہے کہ کسی کمرے میں سو جائیں چلے جائیں ۔ آزادی سے گھوم پھر لیں اپنا مال لگا ہوا ہے تو شاید سمجھ رہے ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے ۔
یقینا ہمارا اپنا گھر ہے تو پھر وہ بچپن کا گھر کیا تھا ؟ وہ بضد ہیں کہ کمرے میں لیکر جا ئو۔ اب ان کو کہا ں لیکر جائیں ۔ ادھر ادھر گھما کر کسی دوسرے کمرے میں لے جارہے ہیں مگر وہ نہیں مان رہی، دوا کھانے کو بھی تیار نہیں نہ جانے کیا چاہتی ہیں ۔ اللہ پاک پھیری ہوئی عمر کسی کو نہ دے ۔ چلتے ہاتھ پا ئوں اپنے پاس بلالے اور ایسی آزمائش میں کسی کو نہ ڈالے کرنے والے اور سہنے والے اللہ کو معلوم ہے کیسے کس دل سے سہتے ہوںگے؟ جب دنیا امتحان کی جگہ ہمارا گھر نہیں مکان ہے تو سمجھ آتی ہے کہ گھر کونسا ہو گا ؟ جہاں ہمیں کوئی کبھی ڈسٹرب نہ کرے۔
سکون اور راحت ہواپنے حصے کا جو کچھ کھائیں صبر شکر سے رہیں ۔ یقینا اسی جگہ کا ہر کوئی خواہاں ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے اللہ میں جس مکان میں ہوں اس کو گھر کردے (آمین)۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ گھر ہم دنیا میں بنا نے کی محض کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ مہربان قدر دان ہمیں کافی سکون عطا فرماتا ہے ۔ جب جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے ۔
اکثر لوگ لکھتے بھی ہیں کہ “ھٰذا من فضل ربی” یہ میرے رب کا فضل ہے تو گویا یہ دعا ہمیں بچوں کو بھی سکھانی چا ہئے اور ہمیں بھی دل سے مانگنا چاہئے اور جس بھی مکان میں ہم رہتے ہیں چا ہے وہ ذاتی ہو ، کرائے کا ہو ، سسرال کا ہو ، میکے کا ہو اپنا مکان اپنا مقام رکھتا ہے اور ہمارا عارضی گھر ہے ۔ اگر تو ادھر بے لوص محبت ہے سکون ہے جذبے رشتے احساس کے ہیں ۔ جذبے نیک ہیں تو بندھن گھروں سے بھی مضبوط اور سکون باعثِ راحت ہو تو وہی میرا گھر ہے ورنہ چاہئے مکان حسین ہو خوبصورت ہو قیمتی ہو مگر اندر رہنے والے لوگ دوغلے ہوں ، خود غرض ہوں ، جذبے نیک نہ ہوں ، مطلبی ہوں، تو خونی رحم کے رشتے بھی اس مکان کو گھر نہیں بنا سکتے ۔
اس لئے اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں کا احترام تقدس بلا امتیاز سچی نیت محنت محبت اور لگن ہو تو وہ کوئی بھی مکان ہو کتنا ہی عارضی ہو “میرا گھر ہے” جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جہاں میں ہمیشہ خوش رہتی ہوں اسکی یاد بھی مجھے مسرور کرتی ہے دوسروں کو بتانے میں مجھے فخر محسوس ہوتا ہے ۔
بچپن کیونکہ بے لوث اور بے غرض ہوتا ہے اس لئے ہمیں بچپن کا زمانہ بہت اچھا لگتا ہے اور ہم بچپن کے اس مکان کو اپنا گھر کہتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں اس کی یاد ہمیں بڑھاپے میں بھی مسرور کر دیتی ہے چاہے آنکھیں ہوں نہ ہوں ، بیمار ہوں یا صحت مند ، ہم اس کی تصاویر دیکھ کر تصور کرکے بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ شعوری طور پر وہ اسے ہی اپنا گھر کہتے ہیں ۔
لیکن ایک عمر گزارنے کے بعد ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ واقعی اس عمر میں بھی ہم جس مکان میں ہیں اسی میں ویسی ہی بچپن جیسی بے فکری اور بے غرضی ہو ۔ بے لوث محبت ، بے پناہ پیار و محبت ہو ۔ سارے لوگ آپ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں دکھ سکھ کے ساتھی ہوں اور ہنسی خوشی مل جل کر رہیں تو ہی میرا یہ مکان میرا گھر ہے ۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بندہ یا خود پریشان رہتا ہے یا دوسروں کی پریشانی کا باعث بنتا ہے مگر ہے وہ اللہ کا بند ہ ہمارے اور آپ جیسا لہٰذا اپنے انسان ہونے کا حق نبھاتے ہوئے اللہ کی خاطر لوگوں کی واہ واہ کے لئے نہیں بلکہ خالصتاً اللہ کے لئے اسی کے ساتھ خوشگوار ماحول دے کر اس مکان کو گھر بنا دیں ۔
اللہ کی مدد انشاء اللہ ہمارے ساتھ ہو گی تو پھر میں فخر سے کہہ سکوں گی کہ یہ میرا مکان نہیں ہم سب کا خوبصورت گھر ہے ساتھ ہی مجھے اپنے ابدی گھر کی فکر ہونی چاہئے کہ اے اللہ میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیجئے جس کے لئے مجھے ہر لمحہ رضا ئے الٰہی کو مدنظر رکھتے ہوئے رضائے الٰہی کے مطابق گزارنا ہے خشیت الٰہی کے سا تھ دوسروں کا حق نبھا نا ہے کہ ہر بندہ میرا بھائی ہے مرتے دم تک مجھے اس کی خیر خواہی کرنی ہے اس دعا کے ساتھ کہ ؎
میرے خدا تو مجھے اتنا معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے