کسی زمانے میں پی ٹی وی پر ایک طنزیہ ڈرامہ سیریز چلا کرتی تھی۔ کمال احمد رضوی کے پُر مزاح، طنز سے بھر پور اصلاحی کہانیوں پر مشتمل یہ چھوٹے چھوٹے ڈرامے اتنے دلچسپ اور پُر تاثیر ہوتے تھے کہ لوگ ایک ایک ہفتے ان کا انتظار ایسے کیا کرتے تھے جیسے کسی خاص الاخاص مہمان کے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اس ڈرامہ سیریز کا نام “مسٹر شیطان” تھا اور اس میں معاشرے کے ایسے افراد جو نیک کام کے مٹھاس کی کوٹنگ کے اندر بدکاری کی ساری تلخیوں کو لپیٹ کر اپنی حرام کمائی کو حلال بنانے اور ترقیوں پر ترقیاں کرنے کی خواہش رکھا کرتے ہیں، کے کردار کو نمایاں کرکے معاشرے کے افراد کی اصلاح کی کوشش کا پہلو نہایت نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔
ایسے ہی ایک ڈرا مے میں “مسٹر شیطان” کسی ایسے کاروباری کو جس کے پاس غیر قانونی راستوں سے حاصل شدہ دولت تھی اور وہ اس دولت سے راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا، اسے جنریٹرز خریدنے کا مشورہ دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ “مسٹر شیطان” کا یہ مشورہ سن کر وہ سخت حیران ہوجاتا ہے اس لئے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں اس بات کا کوئی تصور تک موجود نہیں تھا کہ لوڈ شیڈنگ بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔ اس نے مسٹر شیطان سے کہا کہ کیا وہ اسے بالکل ہی تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے تو اس نے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا کہ تم لاکھوں کی تعداد میں پہلے جنریٹرز تو خریدو پھر دیکھنا کہ بازار میں یہ سب کے سب ہاتھوں ہاتھ کیسے فروخت ہوتے ہیں۔
کیونکہ وہ مسٹر شیطان کا مرید ہو چکا تھا اس لئے اس نے دنیا پھر سے بجلی کے چھوٹے بڑے ہزاروں جنریٹر خرید کر ذخیرہ کر لئے۔ ابھی وہ حیران ہی تھا کہ آخر یہ ملک کے طول و عرض میں کیسے بکیں گے اور بقول مسٹر شیطان، منھ مانگے داموں مارکیٹ میں فروخت ہونگے کہ مسٹر شیطان نے اپنا جال مزید وسیع کرتے ہوئے حکومت کے اعلیٰ عہدیداران، واپڈا اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کے اعلیٰ افسران تک پھیلاتے ہوئے اور ان کو کمیشن کے لالچ میں گھیرتے ہوئے پورے ملک میں اپنی اپنی مشینوں کی مرمت اور خرابی کے بہانے انھیں ایک ترتیب کے ساتھ چند گھنٹوں کیلئے بند رکھنے کا اعلان کرکے پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا شیڈول جاری کردینے کا کہا۔
بس پھر کیا تھا پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی اور پھر پورے ملک میں بجلی کے جنریٹروں کی اچانک وہ طلب ہوئی کہ کوڑیوں کے مول خریدے گئے جنریٹرز سونے کے داموں فروخت ہونے لگے۔پاکستان کے وہ تمام بے خبر حکومتی عہدیدار، واپڈا اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے افسران اس صورت حال سے پریشان ہو کر رہ گئے اور پھر اعلیٰ کمیشن اس بات کی تحقیق کیلئے بنایا گیا کہ مرمت اور خرابی حقیقی ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور سازش کارفرما ہے۔ وہ زمانہ شاید ایمانداری کا زمانہ تھا اس لئے جلد ہی ساری سازش سامنے آ گئی، مسٹر شیطان فرار ہو گئے اور تاجر سمیت سارے ذمہ داران دھر لئے گئے۔
خبر ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ مستقبل میں مہنگائی بڑھتی نظرآرہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اسٹیٹ بینک کے قانون میں تبدیلی کی جارہی ہے اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ پیر کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں انگلش اسپیکنگ یونین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ کسی بھی ملک کے پاس جتنا زیادہ زرمبادلہ کا ذخیرہ ہوگا وہ ملک اتنا ہی خودمختار ہوگا، پاکستان کو گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ یہ نہ صرف مہنگائی پر قابو پائے گی بلکہ اس سے قبل کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے وجہ سے مہنگائی کا گراف جو مصنوعی طریقے سے آسمان کی جانب سیدھا ہو چکا ہے، اسے زمین کی جانب موڑ دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ خود رضا باقر کو بھی اسٹیٹ بینک کا گورنر بنانے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بند باندھنے میں مدد فراہم کریں لیکن حیرت یہ ہے کہ نہ تو حکومت اپنے دعوؤں پر قائم رہ سکی اور نہ ہی رضا باقر حکومت کی مشکلات میں کمی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
حکومت کے دعوؤں اور رضا باقر کی ساری بھڑکوں کے بر خلاف مہنگائی کا جن نہ صرف بوتل سے باہر نکل پڑا بلکہ مسلسل حکومت سے یہی مطالبا کئے جارہا ہے کہ “مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو بلکہ کس کس کو کھاؤں”۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر ضروری اشیا کی درآمد کو اگر روک لیا جائے تو وہ زرِ مبادلہ جو فضول اشیا کی خریداری کی وجہ سے ملک سے باہر منتقل ہوجاتا ہے، روکا جاسکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ حکومتِ وقت نے ہر قسم کی درآمدات بند کرکے غیر فطری طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی ٹھان لی ہے۔
حکومت کے اس اقدام سے بظاہر بڑھنے والا ذخیرہ آنے والے ماہ و سال میں ایک بہت بڑے بحران کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ اگر ایسی اشیا، خواہ وہ مشینری اور ان کے اسپیئر سے تعلق رکھتی ہوں یا وہ اشیا جن کا ہونا انسان کی لازمی ضرورتوں سے ہو، کسی نہ کسی موقع پر جب ہنگامی طور پر درآمد کرنا پڑے گا تو اس وقت حکومت کیا کرے گی اور فوری طور پر بے تحاشہ زرِمبادلہ کہاں سے لانے میں کامیاب ہو سکے گی؟، یہ ہے وہ سوال جو رضا باقر سے پوچھا جانا ضروری ہے۔رضا باقر کا یہ کہنا کہ ” کسی بھی ملک کے پاس جتنا زیادہ زرمبادلہ کا ذخیرہ ہوگا وہ ملک اتنا ہی خودمختار ہوگا، پاکستان کو گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے”، مسٹر شیطان کے عنوان کے تحت نشر ہونے والے ڈرامے کا حصہ ہی لگتا ہے جس میں مسٹر شیطان ایک ناجائز دولت رکھنے والے فرد کو بجلی کے جنریٹر خریدنے پر اکساتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ اگر زرِ مبادلہ کے ذخائر گرنے لگیں تو اس کیلئے “بھیک” مانگ لینا نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ہی کوئی بیغیرتی بلکہ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے اپنی جھوٹی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ کیا اس کے دوسرے معنیٰ یہ نہیں ہوسکتے کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اس لئے پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں سہولت ہو سکے؟۔ یعنی جس طرح مسٹر شیطان
کی منصوبہ بندی کی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جس میں لوڈ شیڈنگ کا کوئی تصور موجود ہی نہیں تھا، اس میں مصنوعی طریقے سے لوڈ شیڈنگ پیدا کرکے جنریٹرز فروخت کرنے کی گنجائش نکالی گئی تھی اسی طرح ملک کی دولت لوٹ کر باہر لیجانے، ملک سے باہر کارخانے اور ملیں بنانے اور غیر ممالک میں جائیدادیں بنانے جیسے اقدامات کر کے زرِ مبالہ کے ذخائر میں کمی کرنے کے بعد اس بات کا جواز پیدا کیا جائے کہ ملک آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائے۔
ملک میں مہنگائی کے آگے بند باندھنے کی جتنی بھی کوششیں سامنے آ رہی ہیں وہ ساری کی ساری کسی مزاحیہ کھیل تماشے جیسی دکھائی دیتی ہیں۔کسی بھی ملک میں زرِ مبادلہ اس وقت تک نہیں بڑھ سکتا جب تک وہ ایسی اشیا پیدا کرنے یا بنانے میں کامیاب نہیں ہو جاتا جو دنیا میں اپنی طلب بھی رکھتی ہوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ارزاں ہوں تاکہ وہ اپنی مارکیٹ بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ملک میں بڑے بڑے منصوبے بنائے جائیں، ملیں اور کارخانے قائم کئے جائیں یا زرعی میدانوں کو وسعت دی جائے تاکہ لاکھوں افراد کو روز گار مل سکے۔
جب ہر گھر میں ایک یا ایک سے زائد کمانے والے فرد کا اضافہ ہوجائے گا تو لوگوں کی قوتِ خرید کے ساتھ ساتھ افراد کی خوشحالی میں بھی خاطر خواہ اضافہ نظر آنے لگے گا۔ المیہ یہ ہے کہ اہلِ اقتدار و اختیار روز گار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے اب تک جو کچھ کرتے نظر آئے ہیں وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ روزگار فراہم کرنے کی بجائے لاکھوں افراد کا بے روزگار ہوجانا ملک کیلئے ایک بہت بڑا بحران برپا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور اگر اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو ملک میں لوٹ مار، چوری چکاری اور اسٹریٹ کرائم میں اس حد تک بھی اضافہ ہوسکتا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے۔
اب تک حکومت کی مشینری مرغی، انڈے، بکری، کٹے، بچھڑے، بیری کے درخت اور بیری کے شہد سے آگے کی سوچ کا مظاہرہ کرتی دکھائی ہی نہیں دی بلکہ وہ جس طرح کے حل عوام کے سامنے رکھ رہی ہے وہ عزت نفس کو کچل دینے کیلئے کافی ہیں۔جس طرح مسٹر شیطان نے واپڈا، حکومت کے اعلیٰ عہدیداران اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کے کمزور ایمان والوں کو لالچ کے جال میں پھنسا کر انھیں لوڈ شیڈنگ پر اس لئے مجبور کیا تھا تاکہ لاکھوں کی تعداد میں خریدے جانے والے جنریٹرز فروخت ہو سکیں اسی طرح لگتا ہے کہ لنگر خانوں اور بیشمار اقسام کے “بھیک کارڈ” کامیابی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیلانے کا منصوبہ مسٹر شیطان” نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔
جب یہ منصوبہ حکومت کے سامنے آیا ہوگا تو یقیناً حکام نے سوچا ہوگا کہ لوگ ان منصوبے پر “بھک مروں” کی طرح کیسے ٹوٹ پڑیں گے تو مسٹر شیطان نے وعدہ کیا ہوگا کہ اسے کامیاب بنانا میرا کام ہے آپ صرف آغاز کریں۔لنگر خانے اور بھیک کارڈز سب کے سب عارضی کام ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ایسی منصوبہ بندی کرے جسے دوام حاصل ہو۔ عوام کو فقیر مت بنائیں، امیر کریں۔ ان کو “نیچے” والا ہاتھ مت بننے دیں،”اوپر” والا ہاتھ بنا ئیں، اسی میں پاکستان اور پاکستانیوں کا وقار ہے۔ آخر میں میں اربابِ اختیار و اقتدار کیلئے اپنے اللہ سے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات دے اور تو دل ان کو نہ دے مجھ کو زباں اور