رواں برس کے آغاز میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا صحت عامہ کے حوالے سے کس قدر بڑے خطرے سے دوچار ہونے جا رہی ہے۔کورونا وائرس کووڈ۔19 جسے اب باقاعدہ ڈبلیو ایچ او نے ” عالمگیر وبا” قرار دیا ہے ، اس وقت دنیا کے سبھی آباد خطوں میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔چین سے باہر دنیا کے ایک سو سترہ ممالک اور خطوں میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد چوالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ چین سمیت مجموعی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد ہے۔دنیا بھر میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد بھی ساڑھے چار ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ بیرون چین دنیا کے اکثر ممالک اور خطے ایسے ہیں جہاں کورونا وائرس مقامی طور ہی پھیلا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے “لوکل ٹرانسمیشن” کا درجہ دیا ہے ، مطلب ان ممالک کا چین سے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن اس کے باجود وہاں کورونا وائرس کووڈ۔19 کی موجودگی باعث تشویش ہے۔
موجودہ صورتحال میں جہاں دنیا بھر کے سربراہان معیشت اور سماج پر کورونا وائرس کے ممکنہ منفی اثرات سے تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں وہاں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے ہمیشہ اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ کووڈ۔19 انسانی تاریخ میں وہ پہلی ” عالمگیر وبا” ہو گی جس پر جلد قابو پایا جا سکے گا۔اُن کے اس اعتماد اور بلند توقعات کے پیچھے چین کا کامیاب ماڈل ہےجس کی بدولت چین میں کورونا وائرس کی پیش قدمی موثر طور پر روک دی گئی ہے اور حتمی فتح کا اعلان بھی جلد متوقع ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چین میں اس وقت کورونا وائرس کے نئے کیس اور ہلاکتوں کی تعداد ، دونوں ” سنگل ڈیجٹ” میں آ چکے ہیں۔چین بھر میں مریضوں کی مجموعی تعداد اسی ہزار سے زائد تھی جس میں سے چونسٹھ ہزار سے زائد مریض صحت یابی کے بعد اسپتالوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں۔کورونا وائرس سے شدید متاثرہ صوبہ حوبے میں دارالحکومت ووہان کے علاوہ دیگر کسی بھی علاقے سےمسلسل کئی روز سے کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے۔شائد اسی خوش آئند پیش رفت کی روشنی میں ہی ڈبلیو ایچ او نے وبا کی روک تھام و کنٹرول کا بھرپوراعتماد ظاہر کیا ہے۔ لیکن اس ساری کامیابی کے پیچھے کیا عوامل کارفرما رہے اس سے آگاہی بھی لازم ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام و کنٹرول کے حوالے سے چین کے کامیاب ماڈل کی اساس” مضبوط قیادت اور نظام کی برتری ” ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ وبا کے خلاف جنگ میں خود قیادت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔اُن کی ہدایات کی روشنی میں انسداد وبا کے مربوط اقدامات کے تحت ملک بھر سے تمام وسائل کو متحرک کیا گیا۔چین بھر میں تمام سطحوں کی حکومتوں کو تمام ضروری وسائل کی فراہمی اور اعتماد سازی سے شامل کیا گیا۔چین کے مختلف علاقوں میں گورنرز اور میئرز نے اپنے علاقوں میں وبائی صورتحال کے باجود بیالیس ہزار سے زائد طبی عملہ اور دیگر امدادی سازوسامان صوبہ حوبے بھیجتے ہوئے بھرپور اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔چینی قیادت نے ” صحت عامہ اور جانی تحفظ” کو اولین فوقیت دیتے ہوئے وبا کی روک تھام اور کنٹرول کی خاطر ووہان شہر کی بندش سمیت دیگر جامع اور سخت گیر فیصلے کیے ۔
قیادت کے بعد دوسرا اہم پہلو عوام کی طاقت اور بے مثال کردار بھی ہے۔صوبہ حوبے بالخصوص ووہان کے شہریوں نے قرنطینہ کے دوران اپنےطرزعمل اورقربانیوں سے ایک تاریخی مثال قائم کی ہے۔چین کے مختلف شہروں سمیت ووہان کے لوگوں نے خود کو گھروں تک محدود کر دیا ،عوامی اجتماعات منسوخ کر دیے گئے، سفری سرگرمیاں ملتوی کر دی گئیں اور معمولات زندگی بالکل تبدیل ہو کر رہ گئے۔صرف ووہان میں ہی شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے پیش نظر بیس ہزار سے زائد رضار کار متحرک ہوئے اور اس طرح چینی عوام نے منظم طور پر اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کورونا وائرس کی روک تھام وکنٹرول کی جنگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسے ایک ” عوامی جنگ”کا درجہ دے دیا۔
وبا کے خلاف جنگ میں چین کی کامیابی کا تیسرا اہم پہلو شفافیت اور کشادگی کا بھی ہے۔صدر شی جن پھنگ کی ہدایات کی روشنی میں ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے وبائی صورتحال سے متعلق دستیاب معلومات کا عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر تمام متعلقہ اداروں سے بروقت تبادلہ کیا ۔مرکز اور صوبائی سطح پر چینی حکام کی جانب سے یومیہ میڈیا بریفنگز کے انعقاد سے تازہ ترین اعداد وشمار کا تبادلہ کیا گیا۔پچیس فروری کو ریاستی کونسل کے انفارمیشن دفتر کا پریس روم ووہان میں ہی منتقل کر دیا گیا تاکہ بروقت معلومات فراہم کی جا سکیں۔چین کی جانب سے آغاز میں ہی وائرس کے پیتھوجین سے متعلق معلومات کا دنیا سے فوری تبادلہ کیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ماہرین ویکسین کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے اور چین کی فراہم کردہ معلومات اور تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں دنیا کو لازمی تیاریوں کے لیے مہلت بھی مل گئی۔
وبا کی روک تھام و کنٹرول میں چین کا ایک اور نمایاں پہلو سائنس وٹیکنالوجی کا موثر استعمال بھی ہے۔بگ ڈیٹا ،آرٹیفشل انٹیلی جنس اور 5G ٹیکنالوجی کے استعمال سے کورونا وائرس پر قابو پانے میں انتہائی مدد ملی ہے۔ٹیکنالوجی کی بدولت ٹیسٹنگ کٹس فوری طور پر تیار کی گئیں۔طبی اداروں اور آبادیوں میں ڈرون اور روبوٹس کے استعمال سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے۔ عام شہریوں کو آن لائن طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ بگ ڈیٹا کی مدد سے لوگوں کی آمد ورفت سمیت وبا سے متاثرہ اہم مقامات کا بروقت تجزیہ کرتے ہوئے فیصلے کیے گئے۔
چین کے کامیاب ماڈل کا ایک اور نمایاں پہلو ” ٹارگٹڈ اپروچ” بھی ہے۔چینی قیادت کی جانب سے ایک نعرہ سامنے آیا کہ ووہان کی فتح ،حوبے کی فتح ہو گی اور حوبے کی فتح پورے چین کی فتح ہو گی۔ یہ لازمی اقدامات کے لیے ایک رہنماء اصول تھا جس پر ٹھوس اقدامات کے تحت عمل درآمد کیا گیا۔ اگر ماضی میں پھوٹنے والے وبائی امراض کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ چین نے جس جرات اور دانشمندی سے وبا کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی اپنائی ہے اس کی تاریخ میں نظیر مشکل ہے۔
ان تمام پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے لازم ہے کہ موجودہ عالمگیر وبا کو شکست دینے کے لیے ہر ملک اپنی اپنی خصوصیات کے تحت چینی ماڈل سے استفادہ کرے تاکہ کووڈ۔19 کے بڑھتے ہوئے پھیلاو کو روکا جا سکے کیونکہ اس وقت وبائی صورتحال کسی ایک ملک یا جغرافیائی خطے تک محدود نہیں رہی ہے لہذا اشتراکی کوششوں اور عالمگیر تعاون کے تحت انسداد وبا سے حتمی فتح کا حصول ممکن ہو سکے گا۔