کرونا کی ماہیت کو سمجھنے کا عمل ساری دنیا میں جا ری ہے، ہرملک میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی بار بار اپیل کی جا رہی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ پھیلتا ہوا وائرس ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ اس وقت تک متاثرہ ممالک کی تعدد ۱۲۷ تک پہنچ چکی ہے، تعلیمی ادارے معطل ہیں ، لوگوں کی آمدورفت پر پابندیاں عائد ہیں۔ایران میں بھی نماز جمعہ تااطلاع ثانوی روک دی گئی ہے، سعودی عرب نے زائرین سے معذرت کر لی ہے، دنیابھرمیں ایک بھونچال آیا ہوا ہے۔ کرونا کی شناخت، اس کی ویکسین کی دریافت اور اس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے شب و روزسائنسدان مصروف ہیں۔
اب آپ آئیے، اور اپنے وطن عزیز کا جائزہ لیجئے،اس کڑی ازمائش میں بعض سیانوں نے لوگوں کو احتیاطی تدابیر اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کروانے کے بجائے،پیاز چبانے، لہسن چاٹنے، پیروں و فقیروں کے ہاتھوں اور پاوں کے ناخن کاٹ کر کھانے، معجونیں اور پھکیاں نگلنے، بدن پر ہلدی اور شہد کی لیپ ملنے، ملتانی مٹی سے جسم کو چپڑنے اور سَر کے بال پانی میں گھول کر پینے پر لگا دیا ہے۔
آئیے اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ پولیو کے قطروں سے لے کر کرونا وائرس تک اور حالات حاضرہ سے لے کر روز مرہ کے مسائل تک ہمیشہ ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار، معجونوں، پھکیوں اور فتووں سے آگےنہیں جاتے۔
ہمارے ملک میں سلائی سنٹر، یتیم خانہ، مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ ، درگاہ یا سکول بنانے اور نماز و قرآن مجیدپڑھانےکو تو خدمتِ خلق اور عبادت تصور کیاجاتا ہے، اس کیلئے فنڈز بھی ملتے ہیں، چندہ، صدقہ و خیرات اور عطیات بھی جمع ہوجاتے ہیں لیکن علمی تحقیق کرنے کو ایک غیر ضروری اور غیر دینی کام سمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ اس وقت ہمارے ہاں پاکستان میں جتنے بھی دینی مدارس ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا تحقیقی مجلہ نشر نہیں ہوتا جو ایچ ای سی سے منظورشدہ ہو اور وزارتِ تعلیم نے اسے ایک تحقیقی مجلہ قرار دیا ہو۔ یہاں پر نورالھدیٰ ٹرسٹ اسلام آباد کے زیر انتظام چھپنے والے مجلے نور معرفت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔یہ پاکستان میں ہمارا واحد مجلہ ہے جو کسی حد تک تحقیقی معیارات پر پورا اترتا ہے ، تاہم ابھی تک اسے بھی وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کے مطابق تحقیقی مجلہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ اگر یہ مجلہ ایچ ای سی میں رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو پھر یہ پاکستان میں ہمارا واحد اور پہلا تحقیقی مجلہ ہو گا۔
اب جو باقی مجلے ہمارے ہاں اِدھر اُدھر سے کاپی پیسٹ کر کے چھاپے جاتے ہیں، آپ ان کو اٹھاکر دیکھ لیں، ان میں سے اکثر کا اصلی ہدف مخیرحضرات سے ڈونیشن سمیٹنا ہوتا ہے، چنانچہ وہ سارے مجلے تحقیقات کے بجائے سرپرست اعلیٰ، مدیر مجلہ، ٹرسٹ کے چئیرمین، اشتہارات، مخیر حضرات اور ضرورتمندوں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ایک مجلے کے سرپرست کے پاس اچھے ڈیزائنر، فوٹوگرافر، پیسٹر، کمپوزر وغیرہ کیلئے بجٹ ہوتا ہے لیکن اس کے پاس محقیقین کیلئے کوئی بجٹ نہیں ہوتا۔
مجلات کے بعد یہی حال ہمارے ہاں کتابوں کا بھی ہے، ہمارے ہاں کتاب کی تصنیف یا ترجمے کا بھی کوئی معیار نہیں، مثلا ایک آدمی نے مدرسے میں صرف ابتدائی عربی پڑھی ہے وہ علم کلام،طب، فلسفہ، عرفان، اقتصاد، سیاسیات ، تفسیر، فقہ نیز ہر شعبے میں مصنف اور مترجم کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارے ہاں قاری اورپبلشر دونوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ہم جس کی کتاب پڑھ رہے ہیں یا چھاپ رہے ہیں یہ خود اس موضوع اور علم کا متخصص ہے بھی یا نہیں۔ بغیر کسی تحقیقی میزان اور معیار کے مجلات کی طرح کتابیں بھی چھپ رہی ہیں اور ترجمہ ہو رہی ہیں۔
اب یہی حال ہمارے ہاں کے واعظین،مدرسین اور مقررین کابھی ہے،ظاہر ہے استثنات ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن اغلب موارد میں جس کا جو موضوع نہیں وہ اسی پر اپنی رائے دے رہا ہوتا ہے۔
آپ کرونا وائرس کے علاج کیلئےلوگوں کو پیاز ، لہسن ، ہلدی، ملتانی مٹی، معجونیں اورناخن کھلانے والوں اورمنبروں سے لوگوں کو خواب سنانے والوں، اور پانی میں سر کے بال گھول کر پینے کے لیکچر دینے والوں سے صرف یہ پوچھ لیجئے کہ آپ کی طبی تحقیقات کس انٹرنیشنل میگزین میں چھپتی ہیں اور آپ کےعلمی مقالات کس تحقیقی میگزین کی زینت بنتے ہیں؟
ہمارے سارے قومی و دینی مسائل، پسماندگی، جہالت اور خرافات کا واحد حل تحقیق ہے۔ جب تک ہم اپنے ملک سے جمود کے تابوت کو نکال کر وہاں تحقیق کے چراغ نہیں جلائیں گے تو تب تک ہر مشکل، ہر بیماری اور ہر وبا کےساتھ خود بخود خرافات کی تبلیغ ہوتی رہے گی۔