تیز دھوپ کے باوجود پتا چلا کہ گاڑی آگئی ہے ۔ ایک دوست مجھے لینے آئی اور چند قدم پیدل چل کر بس میں بیٹھنے والوں میں اول آئے ۔ الحمد للہ دیکھتے ہی دیکھتے دس منٹ میں بس بھر گئی ۔ تھوڑا دور اور چلی مزید لوگ آگئے خواتین ، نوجوان لڑکیاں اور چند چھوٹے بچے بھی اور پھر بس اتنی بھر گئی کہ کہ سب کو سمٹنا پڑا اور تھوڑی ہی دیر میں جناح گرائونڈ میں پہنچ گئے ۔
ماشاء اللہ ہر طرف بسیں ، گاڑیاں ، رکشے میں، پیدل خواتین چلی آرہی تھیں ۔ بہت بڑی جگہ بہت بڑی تعداد منظم ماحول فوراً ہی تلاوت شروع ہوگئی ۔ رضا کار خواتین پمفلٹ ، اسٹیکرز وغیرہ دیتی رہی ، بیٹھنے کے لئے خاموشی سے رہنمائی کرتی رہیں ، ہمیں کافی آگے جانا پڑا ۔ اسٹیج پر معزز شخصیات اپنی کوششوں کے ساتھ منتظر بیٹھی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سا را پنڈال بھر گیا ۔
ہمدردی کا جذبہ قابل ستا ئش تھا ۔ خواتین معمر خواتین کے لئے جگہ بھی چھوڑ رہی تھیں ، خود کھڑی ہوجاتیں ۔ پھر مزید خواتین کنارے کنارے اور کرسیوں کے درمیان جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتیں ۔ اکثر خواتین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھے نعرے قابل تحسین اور معاشرے کی سدھار کا ذریعہ تھے ۔ نیت اور نیک نیتی سے لکھے گئے ان بینر ز پر بڑی محنت کی گئی تھی پھر انہیں اٹھا کر مزید محنت اور محبت و خلوص کا پیغام دیا جا رہا تھا ۔
خاموشی سے تلاوت سننے کے بعد پروگرام کومختلف مقرر ہ خواتین نے چار چاند لگائے۔ درمیان میں بڑی اچھی نظم مجھے مستور رہنے دو پیش کی گئی ۔ پھر محترمہ حمیرا طارق صاحبہ نے بڑی اچھی طرح عورت کی ذمہ داریاں اور مردوں کا قوام ہونا اور انکی خدا داد صلاحیتوں کو اجاگر کیا نیز خواتین کے حساس مسا ئل کو واقعتا حساس موقع پر بڑی بردباری سے پیش کیا اور بتا یا کہ عورت کو طاقت دینا یا عورت کی پاور منٹ کا مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ طاقت تو اللہ پاک کی ذات نے اماں حوا کے ساتھ ہی دے دی ہے ۔
انہوں نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ، انکی بہن اور حضرت آسیہؓ سب عورتیں تھیں تو طاقت انہیں شروع سے ہی ملی ہوئی ہے ۔ذمہ داری ہمیں یہ ملی ہے کہ رب کے بعد ایک مرد کی اطاعت کرنی ہے۔ اس طرح مرد عورت سے وابستہ خاندان کی اولاد اطاعت شعار، فرمانبردار اور پرسکون معاشرے کی بنیاد بنتی ہے ۔ مرد اور عورت کی مساوات ایک دوسرے کا تضاد نہیں بلکہ فطری ذمہ داریوں کے حوالے سے منفرد ہے اور الگ بھی جس میں قدرت نے خود مرد کو قوام بنا کر عورتوں کا محافظ پاسبان نگہبان اور کفیل بنا کر عورت کو نہ صرف معزز کیا بلکہ ہزاروں سخت کاموں سے آزاد کیا ۔
مرد کا درجہ اوپر رکھا کیونکہ طاقت میں ذمہ داری میں کمائی میں بہر حا ل اس کا رتبہ اللہ نے خود بڑا رکھا ہے ۔ زندگی بھر ماں ، بہن بیٹی اور بیوی کے لئے محنت اور محبت کرنے والا مرد کبھی غیر ذمہ دار اور لا پروا اور سست نہیں ہو سکتا ۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ نہیں سکتا ۔ زندگی بھر خاندان کی عزت اور بقا کی جنگ لڑتا رہتاہے ۔ خاندانی کی کفالت ہی نہیں نگرانی کرتا ہے تو معاشرے میں سکھ چین ہو تا ہے ۔ اس لئے خواتین کو اپنی ذمہ داریاں احکام الٰہی کے مطابق نبھانی ہونگی ۔
صبر برداشت سے ملنے والے و سائل کو چاہئے وہ کتنے ہی محدود ہوں شکر گزاری اور قنا عت سے استعمال کرنے ہونگے ۔ ذرا ذرا سی چیزوں کے لئے لالچ دکھانا۔ لڑنا جھگڑنا اور بچوں سے ان کی ذمہ داریوں سے پریشان ہو کر برے کام کرنا عقلمندی نہیں بد عملی اور ناشکری ہے ۔ تنگی میں شوہروں، بھائیوں ، بیٹوں کے لئے بڑی سی بڑی قربانیاں فرا ئض سمجھ کر ادا کرنا بلا معاوضہ بلا نتیجہ ادا کرنا ہی ایک وفا شعار اور نیک عورت کا خا صہ ہے جو رب کو بہت محبوب ہے ۔ تو پھر وہی اسی جہاں تک بہت خوب ہے ۔
پھر ایک اور قابل فخر نظم پیش کی گئی جس میں اتنی خوبصورتی سے بتا یا گیا کہ حیا ہی عورت کا زیور ہے تو پھر ہمیں اس کا نگہبان کیسے ہو نا ہے کیسے ؟ اپنے زیور کی سجاوٹ ہمیں کرنی ہو گی” کچھ اس طرح کہا گیا تھا ۔ الحمد للہ ہمارا اسلامی ملک ہے مگر اسلامی معاشرے کے لئے اسلامی قوانین کا نفاذ اتنا نہیں اس وجہ سے مشکلات ہیں جن کو ہم اپنی بے پناہ لگن تڑپ طلب کے ساتھ اسلامی اقدار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کرکے بخوبی حا صل کرسکتے ہیں جو رب نے پہلے ہی ہمیں دیئے ہوئے ہیں ۔
جسیے تعلیم، آزادی رائے وراثت ، نکاح، خلع ، ووٹ کا حق ، آزادی رائے کا حق ، انتخاب کا حق یہاں تک کہ اگر شوہر کے لئے بھی نا گزیر حا لات ہوں تو خلع کا حق دیا گیا ہے یہ سب ہماری آزادی ہی تو ہے پھر ہمیں کس طرح کی آزادی چاہئے ؟ ہم اپنی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی احکامات کو جب نہیں عمل میں لاتے تو خود بخود ذمہ داریوں سے دور بھاگ کر آزاد ہونا چاہتے ہیں ۔ یہ آزادی دراصل بے صبری ، جلد بازی ، ناموری اور دھو کا دہی ہوتی ہے ، دوسرے معنوں میں بربادی ہوتی ہے ۔ ابھی آج جو ارکان اسمبلی کی چند خواتین نے ٹرک یا رکشہ پر بیٹھ کر لاہورمیں چکر لگا یا یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں ۔ یہ کون سی آزادی ہوئی ؟ یہ تو خود نمائی ہوئی ۔
ہمیں اشتہار نہیں بننا بلکہ مستورات رہتے ہوئے اپنے حسین پرا ڈکٹز کو دنیا میں امن کے پیامبر بنا کر بھیجنا ہے تا کہ دنیا میں امن و سلامتی رہے۔ حیا رہے عورتوں کا معاشرے کا وقار برقرار ہے اس میں اضا فہ ہو کبھی تنزلی نہ ہو ۔ جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ “تم ہی غالب رہو گے “تو اس بات کو پانے کے لئے ہمیں ہر لمحہ امر بالمعروف نہی عن المنکر بننا پڑے گا جب ہی میں آزاد ہوں ۔ بہر حال کانفرنس کا منظم ہونا ہی اس کانفرنس کا پیغام پوری دنیا کے لوگوںکے نام تھا ۔ جس کے لئے تمام جماعت اسلامی ممبران قابل تحسین ہیں ۔ اللہ پاک ہماری ان کاوشوں کو قبول فر مائے اور دونوں جہاں میں ہم سے راضی ہو جائے ۔ آمین