اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں تو پہلے بھی 8مارچ آتارہاہے۔ مگرہمارے یہاں پچھلے سال سے 8مارچ کو ماڈریٹ خواتین کی جانب سے عالمی حقوق نسواں کے دن کے موقع پر عورت مارچ میں لگائے جانے والے قابلِ اعتراض نعرے سمیت کئی ناقابلِ اعتراض پلے کارڈز پر درج جملوں کی وجہ سے آٹھ مارچ کا دن متنازع بن گیاہے۔
اِس کی ذمہ دار بھی یہی خواتین ہیں، جنہوں نے اپنے حقوق کے دن کو بے ہودہ نعرہ لگا کر خود ہی متنازع بنا دیا ہے۔ حالاں کہ کسی مرد کو کوئی اعتراض نہیں ہے کہ خواتین اپنے حقو ق کے حصول کے لئے عالمی دن نہ منائیں۔ مگرآج جس طرح خود خواتین اپنے قابل اعتراض نعرے کو جواز بنا کر اپنا حق مانگ رہی ہیں؛اِس پر تو لازمی طو ر پر مسلم مرد تو مرد ،خواتین کی جانب سے بھی بھرپور مذمت کو سامنے آنا تھا وہ آگیا ہے۔
جیسا کہ آٹھ مارچ کو ماڈریٹ خواتین کے نعرے میرا جسم میری مرضی کے خلاف مُلک بھر میں پاکستانی روایتی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی عورت تقدس مارچ کیا اِس موقع پر جنہوں نے برملامردوں سے ملنے والے عورت کے احترام کو شاندار انداز سے روشناس کروایا۔ اِس کے ساتھ ہی یہ بھی باورکردیا کہ اغیار کے ایجنڈے پر فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کی پاکیزہ پاکستانی عورت کو بے پردہ کرنے کی سازش کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگی۔
بہر کیف ،آج کی عورت یہ بھول گئی ہے کہ عورت کا استحصال عورت ہی کرتی ہے؛ مگر کم عقل خواتین پھر بھی اپنے استحصال کا سارا الزام مردوں کے سر پر دے مارتی ہیں ، برصغیر اور پاک و ہند میں برسوں کی روایت ہے کہ بیٹوں اوربھائیوں کے رشتے کی تلاش میں خواتین ہی ( ماں اور بہن اور دیگر بزرگ رشتے دارخواتین کی روپ میں) نکلتی ہیں۔ تزک و احتشام سے درجن بھریا کبھی کبھار اِس سے بھی زیادہ لڑکیوں کی تلاش جاری رکھتی ہیں۔ اِس دوران خوبصورت ، پڑھی لکھی ، باشعور، باسلیقہ اورسگھڑ لڑکیوں میں اعتراضات بھی یہی خواتیں لگا تی ہیں۔
اللہ اللہ کرکے اِنہیں کئی دِنوں ، ہفتوں ،مہینوں اور سال سے سالوں بعد جب کوئی لڑکی اپنے بیٹے یا بھائی کے لئے پسند آ جاتی ہے۔پھر رشتہ طے ہوجاتا ہے اور شادی بھی ہوجاتی ہے۔ جب یہی لڑکی بہو اور بھابھی بننے کے بعد گھر آجاتی ہے۔ تو پھر کچھ ہی دِنوں بعد لڑکے کی اِسی ماں اور بہنوں کو یہی لڑکی چڑیل اور ڈائن لگنے لگتی ہے۔تب بیچارہ لڑکا بیوی کی حمایت کرے؛ تو ماں اور بہن اِس پر بیوی کا غلام ہونے کا لیبل چسپاں کردیتی ہیں۔
اور جب بیچارہ لڑکا ماں،بہن کی حمایت میں بیوی سے کچھ کہے؛ تو بیوی منہ میں مرچیں چباتی ہوئی چیخ پڑتی ہے کہ اگر اپنی ماں اور بہن کی ہی سُننی تھی تو پھر مجھ سے شادی کیوں کی؟ کرلیتے ناں کسی حور پری سے شادی ۔ اپنے کان کھول کر سُنو جی! اگرمیرے ساتھ رہنا ہے؛ تو پھر اپنی ماں اوربہنوں کو حد میں رہنے کی بات کریں۔ ورنہ مجھے چھوڑ دیں ۔میں اپنے ماں باپ او راپنے بھائیوں پر بھاری نہ پہلے تھی اور نہ اَب ہوں گی۔“ شادی کے بعد تو بیچارہ مرد ماں ، بہن اور بیوی کی لڑائیوں میں پاگل ہوجاتا ہے۔ مگر پھر بھی خواتین کسی بھی روپ میںہوں۔اِنہیں مرد سے یہی شکوہ کھائے جاتا ہے کہ مردوں نے خواتین کو اِس کا حق نہیں دیا ہے۔
آج جو خواتین اپنے قابلِ اعتراض نعروں کے ساتھ مردوں سے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں۔سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق مانگنے والی خواتین پہلے تو اپنی خواتین سے اپنے گھرسے حقوق مانگ لیں۔یعنی کہ ساس ، بہو اور نندوں سے آپس کی لڑائیاں ختم کریں۔ اور ایک پیچ پر آجائیں اور واضح طور پر کہہ دیں کہ ساسوماں آپ کا احترام اپنی جگہہ ہے ۔مگر اَب میں بہو ہوں اور گھر میں میری مرضی چلے گی۔ اور ہاں نند جی تم بھی اپنی حد میں رہو ۔اَب یہ تمہارا نہیں میرا گھر ہے۔ اَب اِس گھر کی مالکن میں ہوں ۔یہاں میری مرضی چلے گی ۔تم اپنے گھر کی ہوجاؤ تو وہاں تم اپنی مرضی چلانا۔
اگر تم خواتین کو اپنے سسرال میں ساس اور نند وںسے یہ کہنے کی ہمت ہے۔ تو پھر اِس کے بعد اپنے باپ، بھائی ، شوہر اور بیٹے سے ایسی ہی آزادی طلب کریں۔ جس کا خواتین گزشتہ آٹھ مارچ سے نعرے لگارہی ہیں۔ اگر اِن کی گھر کی خواتین اور مرداِنہیں ہنسی خوشی اِن کی مرضی کے مطابق حقوق دے دیتے ہیں۔ تو پھر یہ خواتین مُلک کے دوسرے مردوں اور اداروں تک اپنے حقوق کے حصول کا دائرہ پھیلائیں۔ورنہ میرے دیس میں اغیار کی فنڈنگ سے سیدھی سادی مذہبی اور تہذیب و تمدنی روایات پر قائم باپردہ خواتین کو بگاڑنے کی سازش سے خواتین کے تقدس کو پامال کرنا بند کردیں۔
تاہم عورت کہیں کی بھی ہو ، اِس کا احترام مردوں پر فرض اورلازم ہے، اِس سے قطع نظر کہ عورت کس زبان و تہذیب ، رنگ و نسل ،مذہب و ملت اور وطن و سرحد سے تعلق رکھتی ہے : ہر حال میں اِس کے تقدس کا پاسبان مرد ہے۔ مگرآج کیا وجہ ہے ؟ کہ پچھلے سال خواتین کے عالمی دن کے بعد ماڈریٹ خواتین اور مرد دونوں ہی میں ایک خلیج حائل ہوگئی ہے جس کا سارا نقصان آزاد اور روشن خیال خواتین کو ہی ہوگا۔
حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی وجہ سے عورت اور مرد کے درمیان پیدا ہونے والی مذہبی، معاشرتی ، اخلاقی اور سیاسی مسائل کا حل ممکن نہ ہو۔مگر آج 8مارچ کے بعد جیسے ماڈریٹ خواتین کی جانب سے لگایا جانے والا نعرہ” میرا جسم میری مرضی“ ایک ضد کی شکل اختیار کرگیاہے۔ جس کے آنے والے دِنوں میں ہمارے اسلامی معاشرے میں کیا اور کیسا بگاڑ پیداہوگا؟ اِس کے لچھن تو واضح طور پر دِکھائی دینے لگے ہیں۔
بہرحال، 8مارچ آیا اور گزرگیا، مگر مسائل اور کئی قابلِ توجہ بحرانوں میں دھنسے میرے وطن پاکستان میں قدیم اور جدید اسلام پرآزاد خیال مٹھی بھر طبقے کی جانب سے بحث ہنوز جاری ہے، کوئی کسی کی بات اور مدلل دلائل کے ساتھ مثبت نکات ماننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، واضح طور پر ماڈریٹ خواتین میں اپنی آزادی اور میرا جسم میری مرضی کے نظریات کا کھلم کھلا پرچار کرنے کے لئے رواں تہذیب و تمدن اور مذہبی و اخلاقی تعلیمات کے خلاف بغاوت کا عنصر اُس حد کو پہنچا دِکھائی دے رہا ہے۔ اَب جہاں سے اِن کی واپسی ممکن ہی نہیں نا ممکن بھی نظر آتی ہے۔ گویا کہ چند سال پہلے ” میرا جسم میری مرضی کی تختی اُٹھا کر نکلنے والی چند خواتین کے ساتھ مدر پدر آزادی کی خواہاں خواتین جو ابھی آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کم ہیں۔
دُکھ کا مقام تو یہ ہے کہ ہر طرف سے لعن تعن کے باوجود بھی آج جنہوں نے اپنے قابلِ اعتراض نعروں کو صریحاََ عملی جامہ پہنانے کے لئے” میں نہ مانو والی ضد اختیار کرلی ہے“ ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے اَب جن کا یہی مشن ہے کہ کسی بھی طرح حقوق نسواں کی اُوٹ سے پاکستان جیسے مسلم معاشرے میں بھی خواتین کو یورپی عورت کی طرح کی برہنہ ،نیم برہنہ رہنے اورکھومنے پھرنے والی آزادی مل جائے۔ تو یہ چند مٹھی بھر خواتین سمجھیں گیں کہ اِنہوں نے اپنی آزادی کے نام پر پاکستان میں بھی خواتین کے تمام غضب شدہ حقوق حاصل کرلے ہیں۔آج یہیں تک پاکستان میں ماڈریٹ خواتین کی کامیابی کا پیمانہ ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج ہمارے یہاں خواتین کو جتنے حقوق چادر اور چار دیواری میں رہ کر حاصل ہیں۔ اِس کی مثال کسی بھی یورپی مُلک کی خواتین میں نہیں ملتی ہے۔ افسوس کی با ت یہ ہے کہ آج پاکستان میں مٹھی بھرماڈریٹ خواتین کس سے اور کس طرح اپنا حق مانگ رہی ہے ؟ہماری تو 72سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں کیا کبھی کسی کو اِس طرح بے پردہ سڑکوں پر نکل کر بھنگڑے ،دھمال اور اوچھل گو د کرکے ناچ گانے اور بیہودہ نعرے لگانے سے بھی حقوق ملے ہیں؟کیوں ماڈریٹ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ چادر اور چاردیواری میں رہنے سے خواتین کے حقوق غضب ہورہے ہیں ؟
پہلے تو یہ خود کو سمجھائیں کہ جو کچھ یہ کررہی ہیں ۔دراصل اِس سے اِس طرح اِنہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ۔اگر پھر بھی یہ اپنے مشن اور ضد پر قائم رہتی ہیں۔ تو پھراِنہیں چاہئے کہ وہ اُس دیس میں مستقل سکونت اختیار کرلیں۔ جہاں عورت کو اِن کے نعرے ”میرا جسم میری مرضی“ کی آزادی حاصل ہے۔ اِس نعرے کی خواہشمند خواتین اور اِن خواتین کے حامی مرد بھی وہیں چلے جائیں۔ جہاں سے اِنہیں پاکستان میں آزادی حقوق نسواں کے درپردہ ننگا پن پروان چڑھانے کے لئے فنڈنگ کی جارہی ہے۔کچھ بھی ہے مگر کم ازکم ہمارے پاکستان جیسے اسلامی مُلک اور معاشرے میں تو آئین و قانون کبھی بھی اِس کی اجازت نہیں دے گا کہ کوئی میراجسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر مدر پدر آزادی حاصل کرے ؛اور اچھے بھلے صاف سُتھرے ہمارے مسلم معاشرے میں عورت کو بے پردہ ، نیم برہنہ سے برہنہ کردے اور خواتین کے تقدس و احترام کاجنازہ نکال کر تماشہ بنا کر پیش کرے۔