وفاقی وزیرفیصل واڈاصاحب کو اچانک رات میں خواب آیا کہ جس حلقے سے انہوں نے کامیابی حاصل کرکے وزارت حاصل کی ہے اس کا چکر لگا کر ذرا سیکورٹی چیک کرلیں۔اور پھر اگلے دن موصوف بلدیہ ٹائون پہنچ گئے اورچند علاقوں میں اپنے بھرپور پروٹوکول کے ساتھ بلدیہ ٹائون کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر مٹرگشت کرنے کے بعد رات کو ایک ہوٹل پر کھڑے ہوکر تکہ کھاتے ہوئے تصویر بنائی جس کا کیپشن یہ لکھا گیا کہ فیصل واڈا صاحب کارکنان کے ساتھ کھانا کھارہے ہیں۔ دورہ مکمل ہوا اور واڈا جی واپس اپنے عالیشان محل کی جانب یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ سیکورٹی بہت اچھی تھی۔
بلدیہ ٹائون کے حالات پر کچھ صحافیوں نے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی جس کا جواب واڈا صاحب نے یہ دیا کہ پانی کا مسئلہ جادو کی چھڑی سے چند دن میں حل نہیں ہوسکتا، مسائل حل کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے او ر ابھی ہمیں آئے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا ہے۔یہ جواب سن کر عوام کو الیکشن سے قبل والی ٹون یاد آگئی ،جب وہ اپنے حلقے میں ووٹرز سے فرمایا کرتے تھے ،میں پانی کا مسئلہ چند دنوں میں حل کردوں گا، بلدیہ ٹائون کی گلیاں پکی اورٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو پھر سے چلنے پھرنے کے قابل بنائوں گا۔ اورخاص کر کچرے کے ڈھیر پر کھڑے ہوئے کر فرمایا تھا کہ ہم اسے ٹھکانے لگائیں گے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان نمائندوں میں سے نہیں جو وعدے کرکے مکر جائیں ،ہم نیا پاکستان بنانے جارہے ہیں اورآپ اس میں ہمارا ساتھ دیں۔
نیا پاکستان تو ملا نہیں عوام پرانے پاکستان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔ بلدیہ ٹائون کے مسائل پر جب بھی پی ٹی آئی کے کسی نمائندے سے بات کی جائے تو آگے سے ایک ہی جواب ملتا ہے ،فنڈز آرہے ہیں ،دو سال سے یہ فنڈز نامعلوم مقام سے آرہے ہیں جو اب تک بلدیہ ٹائون نہیں پہنچ سکے۔ لیکن اب فنڈز کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے مسائل بڑھ گئے ہیں ،ہم کچھ نہیں کرسکتے ،گورنمنٹ کے کام اتنی آسانی سے نہیں ہوتے۔ ان فنڈز کو آنے میں وقت لگے گا۔ ملک کا وزیراعظم یوٹرن کے نام سے تو مشہور ہے ہی اب نمائندے بھی یوٹرن لینے کے ماہر بن چکے ہیں۔ بات اگر انہیں تک محدود ہوتی تو کچھ سمجھ آتا ،مگر اب نمائندوں کے بھی نمائندوں نے یوٹرن لینا شروع کردیا ہے۔
ملک شہزاد اعوان کے علاقے میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ،چوری ،ڈکیتی ،چھینا جھپٹی اور منشیات تک علاقے میں بک رہی ہے لیکن موصوف صرف ٹرانسپورٹر ز حضرات کے مسائل کے حل کیلیے گورنر ہائوس جاتے ہیں اورواپسی میں ایک منجن بلدیہ ٹائون کے عوام کو یہ دے دیتے ہیں کہ میں نے گورنر سندھ سے مسائل کی بات کی ہے اورانہوں نے جلدمسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ،لیکن دو دن بعد معلوم ہوتا ہے ٹرانسپورٹرز کے دیرینہ مسائل حل ہورہے ہیں۔ ملک شہزاد اعوان نے ووٹ بے شک عوام سے لیے مگر کام ٹرانسپورٹرز حضرات کے ہی کرتے ہیں ۔ عوامی مسائل حل کرنے کیلیے نہ تو ان کے پاس فنڈز ہیں اور نہ ہی اٹھارویں ترمیم کے بعد کوئی اختیار،لہذا جب نیند سے آنکھ کھلتی ہے ،گاڑیوں کا قافلہ نکالتے ہیں اور دو چار علاقوں کا دورہ کرکے عوام کو مزید نئے وعدوں کی یقین دہانی کرواکر پھر سے اپنے کام پر چلتے بنتے ہیں۔
بلدیہ ٹائون آج مسائل کا گڑھ بن چکا ہے ،مگر سیاسی ڈرامے بازیاں ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہیں،دو سالوں میں نہ تو پانی کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مرمت کروائیں گئیں۔ میئر کراچی نے گزشتہ دنوں بلدیہ ٹائون کا دورہ کیا تو ایک دن میں موصوف کے چاہنے والوں نے سڑک مرمت کردی تاکہ میئر کراچی صاحب کا دورہ بے کار نہ جائے کچھ افتتا ح کرکے جائیں ۔ لہذا مرمت کی گئی سڑک کا افتتاح کیا اور وہ بھی چلتے بنے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے پولیو کمپین کا افتتاح کرنا تھا، دو روز تک بلدیہ ٹائون کی اہم شاہراہ کی صفائی ستھرائی میں لگے،اورپھر محترم وزیراعلیٰ سندھ بلدیہ ٹائو ن تشریف لائے اور پولیو کے دو قطرے بچوں کے منہ میں ڈالے اور وہ بھی چلے گئے۔ لیکن ان تمام تر ڈرامے بازیوں کے باوجود کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ کوئی بلدیہ ٹائون کے مسائل حل کرنے کی بات کرتا ،کوئی فنڈز مہیا کرنے کا اعلان کرتا، بلدیہ کارڈیو سینٹر جو 2009سے زیر تعمیر ہے اس پر ہی کوئی ایکشن لیاجاتا ،یا پھر اسے مکمل کرنے کی کوئی ڈیٹ لائن دی جاتی ،چلیں اسے بھی چھوڑیں ،بلدیہ فٹبال اسٹیڈیم پر ہی کوئی لب کشائی کی جاتی کہ اسے ادھورا چھوڑا گیا ہے مکمل کب ہوگا،افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سیاست چمکانے کے لیے سیاسی ڈرامے بازوں نے بلدیہ ٹائو ن کا رخ ضرور کیا مگر کسی نے بلدیہ ٹائون کے مسائل پر بات تک نہیں کی ۔
عمران خان صاحب نے وزیراعظم بننے سے قبل ایک بات کہی تھی جو واقعی سچی تھی،ان کا کہنا تھا کہ اچھا ہوا ہمیں وفاق میں حکومت نہیں ملی،کیوں کہ ہم اسے بالکل نہیں چلاپاتے۔ یہ بات انہوںنے کے پی کے حکومت کی ناکامی کے بعد کہی تھی۔ پھر انہوںنے یہ بات بھی کہی تھی کہ ہمارے پاس 200ماہرین پر مشتمل بہترین ٹیم ہے جو ملک کو ترقی کی نئی شاہراء پر لے جائے گا۔ لیکن جیسے ہی حکومت ملی ،وہ 200بہترین ماہرین بدترین ماہرین میں شمار ہوگئے اور فرمایا کہ مجھے اچھی ٹیم نہیں ملی۔یہ حقیقت پہلے ہی عوام کو بتادی ہوتی تو آج شاید کے پی کے اورپنجاب میں بھی ان کی حکومت نہ ہوتی۔ اب عوام کا سوال کرنا تو بنتا ہے کہ پہلے کون سا ایسا پیمانہ تھا جس میں آپ کو لگا کہ یہ بہترین ماہرین ہیں جو ملک کو ترقی دلواسکتے ہیں ،پھر بعد میں کس پیمانے میں آپ نے انہیں تول کریہ نتیجہ نکالا کہ یہ ماہرین بے کار ہیں ۔ ؟
درحقیقت اب بلدیاتی الیکشن نزدیک ہیں اس لیے ہر وزیر ،مشیر ،ایم این اے اورایم پی اے سب عوام کو نئے راگ سنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں اور یہ وقفے وقفے سے حلقوں کے دورے اسی بات کی نشانی ہے کہ اب عوام کو پھر سے بے وقوف بنانے کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے لہذا حلقوں میں جاکر عوام الناس کو اپنی شکل دکھائی جائے ورنہ سیٹیں نہیں ملیں گی۔ تجوریوں کے منہ فی الحال بند رکھے ہوئے ہیں لیکن جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہوگا تجوریوں کے منہ کھل جائیں گے ،سڑکو ں کی استرکاریاں شروع ہوجائیں گی ،نامعلوم مقام سے فنڈز آنا شروع ہوجائیں گے ،اٹھارویں ترمیم کا ڈرامہ ختم ہوجائے گا۔
متحدہ ،پی پی پی ،ن لیگ اوردیگر پارٹیوں کے خلاف مغلظات سننے کو ملیں گی اور عوام پھر ان کے جلسوں میں تالیاں بجا بجاکر انہیں ویلکم کرتے نظرآئیں گے۔ لیکن مسائل جو ں کے تو ں ہی رہیں گے۔ کیوں کہ بیچ میں اٹھارویں ترمیم جو وقتی طورپر کہیں غائب کی گئی تھی وہ آڑے آجائے گی۔ اب نئے پاکستان کے نام پر حکومت بنانے والوں نے ایسا تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا کہ عوام انہیں سندھ اوروفاق میں ایک ساتھ اتنی آسانی سے بیٹھنے دے، لہذا ایسے بہانوں کو جہاں تک ہوسکے تول دیاجائے تاکہ کام چلتا رہے۔
آج بلدیہ ٹائون کے ہر حلقے میں لوگ پانی پانی کی پکار کررہے ہیں ،مگر مجال ہے کوئی اس پر بات کرلے۔ گلی گلی میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ،مگر کسی میں اتنی جرات نہیں کہ اس کچرے کو ٹھکانے لگاسکے۔ یہاں نہ تو وسائل کا مسئلہ ہے اور نہ ہی فنڈز کا کوئی چکر ہے اور نہ ہی بیچ میں کوئی اٹھارویں ترمیم ہے ،لیکن اس کے باوجود یہ مسائل ،مسائل ہی رہے گے۔
چیئرمین بلاول بھٹو کے مطابق سلیکشن کرنے والوں نے سلیکشن میں بھی غلطیاں کرلیں،جس کا خمیازہ جہاں وطن عزیز کو کرناپڑرہا ہے وہیں عوام بھی نئے پاکستان کے عذاب میں مبتلا نظرآتی ہے۔ ،مہنگائی عروج پرپہنچا کر دو روپے کمی کرکے عوام پر احسان عظیم کیاجاتا ہے ،کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ماسک تک اپنے ہی لوگ اسمگل کرنے میں ملوث نکل رہے ہیں ،بجلی کے بلوں میں 2016ء کے فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں ،پیڑول 25پیسے کم کرکے اگلے مہینے 10روپے بڑھادیے جاتے ہیں اورپھرآخر میں وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں ۔ میں آٹا چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن عوام کا سوال یہ ہے کہ پہلے ان چوروں کو پکڑکر تو دکھائیں پھر چھوڑنے کی بات کریں۔
جنہیں پکڑا تھا ،جن کے بارے میں کہاتھا کہ میں عوام کا ایک ،ایک پیسہ وصول کروں گا،وہ آپ کی نظروں اورآشیر باد سے باہر جاچکے ہیں ۔ میڈیا کو آپ نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ،جو اب سوال کرے اسے سیدھا ایف آئی آر کا سامنا کرناپڑتا ہے ،نیب کا استعمال بھی ذاتیات پر کیاجارہاہے اورپھر کہتے ہیں ،ملک ترقی کررہا ہے۔ آخر ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی کتاب ہے جہاں لکھا ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے؟ پرانے کاموں کا نئی تختی لگا کر افتتاح کرنے سے اگر ملک ترقی کررہا ہے تو پھر ایسی ترقی ہمیں نہیں چاہیے۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اگر ملک اورعوام پر کوئی رحم کرنا چاہتے ہیں ،انہیں ریلیف دینا چاہتے ہیں توبرائے مہربانی ڈرامے بازیاں چھوڑ کر استعفے دے دیں ،عوام کے لیے اس سے بڑا تحفہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ ورنہ آئندہ الیکشن میں ناکامی کے بعد آپ پھر یہ کہہ رہے ہوں گے کہ اچھا ہوا ہمیں حکومت نہیں ملی، ورنہ بچا کچا پاکستا ن بھی ہم سے تباہ ہوجاتا۔