وہ عجیب سی نفسانفسی کی کیفیت میں ہوتی ہے۔ کبھی کہتی باجی دو ہزار دے دیں،کبھی کہتی فلاں باجی کا کام چھوڑ دوں گی وہ زیادہ کام لیتی ہیں کبھی کہتی اس بار میرا قرض میری تنخواہ سےمت کاٹنا ،کبھی آتی تو اس بات پر خوش ہوتی کہ فلاں باجی گھر پر نہیں تھی اس لیے آج میرا کام آسان ہوگیا۔ کبھی کسی کا کام نہ کرنے پر خوش ،تو کبھی کسی کے کام میں ڈنڈی مارنے پر خوش۔
باجی ادھر ادھر تھی تو میں نے جلدی جلدی کپڑے نکال کر رسی پر پھیلا دیے۔ میں کہتی بشریٰ تو تو میرے گھر میں بھی اسی طرح ڈنڈی مارتی ہوگی تو خوشامدی ہو جاتی نہیں باجی میں ایسا نہیں کرتی وہ فلاں باجی ٹکٹک بہت کرتی ہیں ایسے کرو ایسے نہ کرو اس لیے میں ان کے ساتھ ایسا کرتی ہوں۔ آج اتنے ادھار کل اتنے ادھار بشریٰ نہ تو تیرا شوہر نہ بال بچے تو اتنے پیسوں کا کیا کرتی ہے تو کہتی اس بار کم پر گئے اگلی بار دے دوں گی۔
بہت بار پوچھنے پر آج اسنے بتا ہی دیا ،باجی آٹھ سال کی عمر سے کام پر آتی ہوں پہلے بڑی بہن کے ساتھ کام کرتی تھی بیس سال کی عمر تک یونہی کام کرتی رہی ہیں پھر اماں کو کچھ احساس ہوا تو اس نے میری شادی کر دی شادی کیا کردی بربادی کردی شادی کے بعد شوہر کا سلوک اور سسرال والوں کا رویہ بہت خراب رہا۔ ماں کے گھر جانے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا وہاں بھی کون سا کوئی تخت رکھا تھا میرے لیے۔
شوہر سے لڑ جھگڑ کر الگ گھر کرائے پر لیا مگر شوہر ساتھ آنے پر راضی نہ ہوا پھر سامان اٹھایا ساس کے گھر گئی تو ساس نے گھسنے نہ دیا چند ماہ کی حاملہ تھی اس لیے ماں کو ترس آگیا اپنےگھر پر رکھ لیا ساتھ ہی کام بھی کرتی رہی۔ کسی کی دو منزل کسی کی چار منزل کام کام اور بس کام آخر چند ماہ بعد بیٹے کی پیدائش ہوئی تو میری قسمت مجھ سے دو قدم آگے تھی بچے کے دل میں سوراخ تھا ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لئے لیے پھرتی رہی دو ماہ بعد بچہ چل بسا تو مشکل سےکفن دفن کے پیسے اکٹھے کرکے تدفین کی۔
ماں شوہر اور سسرال کے سلوک سے بدظن ہوکر رشتے کی بھابھی کے ساتھ ملکر الگ گھر کرائے پر لیا۔ چھوٹی بہن نے بھاگ کر شادی کر لی تھی اسے سسرال والوں نے نہ اپنایا، ماں کے پاس جانے کے بجائے میرے پاس آ گئی اب ہم دونوں بہنیں ساتھ رہتے ہیں۔ جو رشتے کی بھابھی ہیں ان کی امی کا پورا مکان ہے بہت سارے کمرے کرائے پر اٹھا رکھے ہیں۔ ہمیں بھی ایک کمرہ کرائے پر دیا ہے۔ دس ہزار کرایہ دیتی ہوں بجلی اور گیس کا بل الگ۔ پانی کی موٹر کا خرچہ الگ۔ اتنے پیسوں میں گذارا نہیں ہوتا اس لیے آپ سے ادھار لے لیتی ہوں ایک دو جگہ بیسی ڈال رکھی ہے وہ کھلتی ہے تو پھر آپ کا قرض واپس کر دیتی ہوں۔
ایسی بہت سی کہانیاں اس معاشرے میں بکھری ہوئی ہیں۔ایک عورت جو شاید بمشکل بیس پچیس سال کی ہوگی زمانے کے نشیب و فراز دیکھ چکی ہے شوہر ماں باپ سسرال سب کی ٹھکرائی ہوئی ہے۔ اس کی زندگی بس یہی ہے کہ ایسا کام مل جائے جس کی اجرت زیادہ ہو اور کام ہلکا ہو اور وہ جلدی جلدی سے اپنا کام نمٹا کر مغرب سے پہلے گھر چلی جائے۔ دونوں بہنیں ہیں ایک کی طلاق ہوچکی ہے ایک بغیر طلاق کے ہی بیٹھی ہے کیریکٹر کی بری نہیں ہے۔ نہ کسی کو نگاہ اٹھا کر دیکھتی ہے نہ کسی کو دیکھنے دیتی ہے اپنی زندگی کو اپنے بل بوتے پر کھینچ رہی ہے۔ کیا عورت آزادی مارچ اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی این جی اوز کے نزدیک ان عورتوں کے مسائل کی کوئی اہمیت ہے وہ ان کے لیے کیا کر رہی ہیں ان کے پلے کارڈز میں عریانی اور فحاشی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔