آٹھ مارچ کا خواتین مارچ

خواتین کے عالمی دن پرمختلف مکتبہ فکر ، اداروں ، سیاست ، تجارت، مذہب اور معاشرت سے تعلق رکھنے والی خواتین مارچ کرتی ھیں اور سب کو ایک ہی ہاون دستے میں پیس ڈالتی ھیں ۔٢٠١٩ کے ٨مارچ کے خواتین مارچ نے جس طرح اہل بصیرت اور دانش مندوں اور علماء کو پریشان کیا انہیں اکٹھا کیا کہ یہ کہاں سے خواتین آتی ہیں کونسی این جی اوز ہیں جنہوں نے اس مارچ کا اہتمام کیا۔

انہیں جھٹکا لگا کہ یہ کونسی خواتین ھیں جن کے ساتھ ناانصافیوں کے علاوہ ذھنی و جسمانی تشدد ھوا کہ انہیں حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے سوشل میڈیا کے ساتھ محاذ کا میدان سڑکوں کو بنانا پڑا ۔عام آدمی کی آواز بننا پڑا ،انہیں احساس ھواہمیں اپنی بچیوں کے حقوق، جایداد میں حصہ اپنی اسلامی ذمداری سمجھتے ھوئے ۓ ان کے مسائل کو سمجھنا چاھیے ۔۔ قوانین کے مطابق  ان کے حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاھیے ۔ ساتھ ھی طلاق اور خلع کی تشویش ناک بڑھتی شرح کی طرف بھی توجہ دینی چاھیے ۔

۔۔۔لیکن!لیکن!  سلوگن جو انہوں نے استعمال کیے وہ شرمناک تھے مانگنے والا طریقہ غلطہ تھا کہ میرا جسم میری مرضی ۔اس سال ٢٠٢٠  میں پھر میرے اعضامیری مرضی اور تصویر کے ساتھ تشہیر قابل مذمت ھے ۔اپنی چائےخود بناؤپر یورپ میں طلاق ھوئیں ۔اپنا کھانا خود گرم کرو ۔ھم دوپٹہ کیوں لیں ،تم اپنی آنکھوں پر دوپٹہ باندھو ،۔۔انسان بنو ایکسرے مشین نہیں ۔۔اسکول بھیجو سسرال نہیں ۔دوپٹہ اتنا پسند ھے آنکھوں پر باندھ لو ۔سٹوپ ڈومیسٹک وائلنس، ایٹس کلز مور دن کرونا ۔محبت کرنے سے ڈرتے ھو ظلم کرنے سے ۔اگر عورت شوھر کی نافرمان ھو تو شوھر کو اپنا بستر الگ کرنے کی اسلام میں بھی مرد کو اجازت ھے ۔

سلوگن میں چند ایک کے علاوہ اسلام کے خلاف ھیں ۔عورت کو حراساں کرنا بچیوں کے ساتھ  عورتوں کے ساتھہ زیادتی کرنا اغوا کرنا ظلم ھے ۔ مردوں کے برابر مزدوری نہ دینا  زیادتی  ھے ۔ان پر احتجاج قابل اعتراض نہیں مرد اور عورت طاقت میں برابر نہی یہ تو دین بھی کہتا ھے ھمیں بھی معلوم ھے ۔ مرد اور عورت برابر ھیں ۔اس والد کے لیے ۔جو کہتے ھیں میری مرضی میری بیٹی  تو پھرمارچ میں شامل والد نے کہا حقوق نسواں کےلیے آٸیں مگر دین کو چیلنج نہ کریں ۔ایسا نہ ھو کہ ” کوا چلا ہنس کی چال “ اپنی چال بھی بھول گیا ۔”دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ “

آج باپ ھے کل آپ بھی شوھر بیٹا اور بھاٸ تھے ۔آپ بھول گۓ کہ آپ مسلمان والد ھیں ۔معاشرتی نا انصافی آپ کی بچی کے ساتھہ ھوٸ ھے تو اس کا سد باب ھونا چاھیے آٸین اور دین کے مطابق  مذھبی جماعتیں بھی کہتی ھیں ۔ اسلام کی مطابق قصاص کا قانون نافذ کریں سزاٸیں بھی اس کے مطابق دیں ۔اورجلد سزاٸیں دیں معصوم بچیوں کے ساتھہ زیادتی  قتل پر سینٹ میں جماعت اسلامی نے سزاۓ موت کا مطالبہ کیا ھے کہ یہ بل پاس کیا جاۓ۔اگر ازدواجی تشدد ھے۔

خاندان میں بڑوں کے فیصلے ماننے چاھییں لڑکیوں کےلیے صبر تحمل اور ازدواج مطہرات کی سیرت کا مطالعہ بھی ضروری ھے ۔نصاب کے ساتھہ ڈاکٹر  انجنیر۶ اور ٹیچر کی تعلیم کے  ساتھ انہیں گاھے بگاھے دینی  تعلیم کی ضرورت ھے، کہ ھماری نٸ نسل فییمینزم کی دلدادہ ھو رھی ھے ۔ مغربی تعلیم کے ساتھہ تہزیب کی بھی تو یہ ریاست اور والدین کی ذمداری ھے کہ ان کو قرآن وسنت کے ساتھہ جوڑے لڑکوں اور لڑکیوں کو ۔مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ھیں ۔

اور ایک دوسرے کے لیے لازم و  ملزوم بھی ۔حضرت آدم اداس ھوۓ جنت میں تنہاٸ میں تو اللہ تعالی نے حضرت حوا کو تخلیق کیا ۔ان کا پتلا بنایا مگر ان کو چادر سے ڈھک کر رکھا جان ڈالنے سے پہلے اللہ کو بھی ان کی تعظیم  پسند تھی ۔اورعورت کو ڈھکا ھوا عورہ کہا۔مرد اور عورت طاقت میں یکساں نہیں آج کی عورت برابی کے حقوق مانگتی ھے میڈیکل اور دوسری تعلیمی یو نیورستی میں قابلیت کی بدولت برابر کی سیٹ ھیں ۔اگر تنخواھیں برابر کی بنیا د پر دفاتتر یا فیکٹری کارخانے میں نہیں دیتے ۔تو مطالبات پر حکومت کو ان کا حق دلانا چاھیے ۔ اس

دوران کا حراسمینٹ پر بھی حکومت اور مالکان کو ذمدار ھونا چاھیے ۔ اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ بچوں کیغوث پرورش میں  یا شوھر کی آمدن مییں اضافہ کی غرض سے اس کا  ھاتھہ بٹانا مجبوری ھے تو ملاازمت بہتر ھے ۔ ۔ورنہ تواللہ تعالی نے معاش کی ذمداری مرد کو سونپی ھے اسے قوام بنایا ھے ۔مگر ضرہرت اورآساٸش میں تمیز عورت بھی بخوبی کرسکتی ھے ۔بالوجہ اپنی آپ کو مشقت میں نہ ڈالیں ۔آجکل خواتین گھر پر بیٹھے آن لا ٸن بزنس کررھی ھیں۔

علما۶ کو بھی احساس ھوا کے ہماری امت کی بیٹیاں دکھ تکلیف میں ھے مگر سلوگن صاف ستھرے استعمال کریں حق مانگیں مگر اپنی تذلیل نہ کریں مسلم عورت کو  نبی آخر زماں ﷺ نے فر ش سے اٹھا کر عرش پر لا ۓ ۔ حقوق کے ساتھہ اور عزت واحترام کے ساتھ گھروں میں ملکہ بنا کر بٹھاکر گے ھیں ۔

وہ شوھر سے حق مہر جاٸیداد میں والد بھاٸ اور شوہر سے دلواکر گے ھے ۔گواھی کا حق بھی ۔جب دور جہالت میں عورت سے نکاح کروایا ۔گواھہں کی موجودگی میں لڑکی کی رضامندی کا حق خود حضرت فاطمہ سے اپنی بیٹی سے پوچھ کر کیا ۔تو ھماری حقوق   حق تلفی تو کہیں نہیں ھوٸ ۔عرب میں دور جہالت میں بچے کی پیداٸش کے بعد مرد جاہتا تو عورت کو واپس گھر لاتا ورنہ ضروری نہ  سمجھتا مگر اسلام نے گھر کو جنت اور ماں کے قدموں تلے جنت رکھہ دی تو عورت کتنی خوش قسمت اور معتبر ھوگی۔

ھمیں مغرب کی عورت کی طرح حقوق کے لیے لڑنا نہیں پڑتا کوٸ عورت کو  منحوس نہیں کہتا ۔بیٹی رحمت ھے ۔کوٸ زندہ درگور نہیں کرتا بلکہ رحمت کہا جاتا ھے ۔ستی نہیں کیا جاتا شوھر کی موت کے بعد اس کے ساتھہ زندہ نہیں جلا یا جاتا اس کو دوبارہ نکاح کرنے کا شرعی حق دیا شوھر سے نہیں بنتی تو خلا۶ لے سکتی ھے مجبوری کہیں بھی نہیں ۔تو کون سی  آزادی  نہیں اسلام میں  بس بے  حیاٸ اسلام میں نہیں ۔

حدیث ھے کہ”حیا نہ کرو تو پھر جو چاھے کرو “نماز بے حیاٸ سے روکتی ھے جسم اللہ کی امانت موت کے بعد مٹی میں مل جاۓ گا اس کی امانت اس کے پا س لوٹ کر جاۓ گی  ۔آپ کا اپنا کیا جس کا حق سمجھتی ھیں ۔اصل مقام آخرت اور اس کی تیاری  کریں ” آے نبی ﷺ مومن عورتوں سے کہ دیں اپنی نگاھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاھہں کی حفاظت کریں ۔“مردوں سے بھی کہا کہ ” وہ  اپنی نگاھیں نیچی رکھیں۔“ آپ مغرب کی عورت کی آزادی نہ مانگیں ھر رشتے  سے محروم ھو جاۓ کوٸ ایسا مذہب ھے جو عورت کے ساتھ مرد کی بھی تربیت کرتا ھو ۔

صرف تنہا اپنے جسم کے ساتھہ اس کو کب تک سنوارے گی نکھارے گی ساری زندگی آپ جوان نہیں رہ سکتیں۔ ھر چیز کو زوال ھے فنا ھے ایسی  این جی اوز سلو گن اور بینرز کو دفن کردیں منوں مٹی کے اندر۔ جیسے موت کے بعد ابدی زندگی ھے، خاندان اولاد  اور والدین آپ کی آرام گاہ اور پناہ گاہ ھیں  ۔

صبا احمد

جواب چھوڑ دیں