امی آپ کہاں ہیں، حفصہ ثوبیہ کو ڈھونڈتی کچن میں آگئی ۔کیا ہوا خیر ہے کیوں آوازیں دے رہی ہو اورکالج سے جلدی کیسے آگئی ہو! ثوبیہ نے چولھا بند کرکے حفصہ سے پوچھا،ایک پریڈ نہیں لیا اسوجہ سے جلد آگئی، کیا پکایا ھے خوشبو تو اچھی آرہی ہے۔ حفصہ نے پتیلی کا ڈھکن اٹھاتے ہوئے پوچھا ،ٹھیک ھے جلدی آگئی ہو تو ٹیبل لگا کر کھانے کے لیے سب کو بلا لو۔
ثوبیہ نے کچن سے باھر جاتے ھوئے کہا،امی کھانے کے بعد آپ کو ایک کام کرنا ھے کل کالج میں تقریری مقابلہ ھے میں بھی حصہ لوں گی میری لکھی تقریر پڑھکر جو ردوبدل کرنا ھو بتادیجےگا- کھانے کے بعد حفصہ نے اپنی لکھی تقریر ثوبیہ کو دی “عزیزاساتذہ طالبات ومھمان گرامی السلام علیکم آج جس موضوع پر مجھے لب کشائی کا موقع ملا وہ ھے ” نسل نو کی تربیت میری ذمہ داری”۔
عزیز ساتھیوں اچھا معاشرہ اچھے انسانوں سے تخلیق پاتا ھے ,اچھے انسان بنانا ھی انسان کی بڑی ذمہ داری ھے اس سلسلے میں والدین کا کردار بیحد اھم ھے خاص طور پر ماں کا کردار کیونکہ ماں بچوں کی تربیت اور انکی بنیادی ضروریات کے ساتھ ان عوامل کی طرف بھی توجہ دیتی ھے جو اس کے بچوں کی شخصیت کی تکمیل کرےاور ان کو معاشرہ کا بہترین فرد بنائے۔
آ سمان پر نظر رکھ انجم ومہتاب دیکھ صبح کی بنیاد رکھنی ھے تو پہلے خواب دیکھ
ساتھیوں! عالم اسلام واحد مذھب ھے جس نے مردو عورت کے حقوق کا تعین کردیا ھے مرد کو قوام بناکر خاندان کی کفالت کا ذمہ دار بنایا ۔اسلام نے عورتوں کو شرافت وانسانیت کی ضمانت کے ساتھ اسے شرعی آزادی عطا کی اور اس پر ایسے اعمال کی ذمہ داری ڈالی یعنی نسل نو کی محافظت جو اس کی طبیعت اور مرضی کے حساب سے ھو عورت میں شفقت وپیار کا جذبہ رکھا تاکہ وہ بچوں کی تربیت کا فریضہ بہترین طریقے سے انجام دے۔
انھی ماؤں کے ناز ک کاندھوں نے ایسے ایسے ھیرے تراشے ھیں جو رھتی دنیا تک لوگوں میں اپنے اثرات مرتب کررھے ھیں مثلاً پیارے نبی صل اللہ علیہ وصلم تمام انبیائے کرام وصحابہ کرام سرسیداحمدخا ن قائد آعظم علامہ اقبال مولانا جوھر اور دیگر عظیم شخصیات۔
ساتھیوں!اسلامی معاشرہ نسل نوکی تربیت محبت وشفقت سے سر انجام دیتا ھے، دیکھاجائے تو مغرب میں آج یہ محبتیں یہ حفاظتیں ختم ھوتی جارھی ھیں اب یہ مغرب تک محدود نھیں بلکہ ھمارہ معاشرہ بھی اسی لپیٹ میں آرھا ھے-“جو بھی آشیانہ شاخ نازک پر بنے گا وہ ناپائیدار ھوگا”۔آج کی مسلم ماؤں کو اپنے نسل نو کی تربیت کے لیے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ھے۔
ان چیلنجوں سے نمٹنا اسکے لیے بہت ضروری ھے کیونکہ ویسٹرن انٹرسٹ نے ھمارے معا شرے میں بھی پنجے گاڑنے شروع کرد یے ھیں انکی فنڈنگ این جی اوز تک پہنچتی ہیں۔ وہ فنڈنگ کے بل بوتے پر جس طرح چاھتے ھیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کردیتے ھیں۔
یھی وجہ ھے کہ آ ج معاشرے میں مغربی تھذیب کی ثقافتی اور فکری یلغار کا سامنا ھےان کا مقصد مسلم معاشرے کو مغربی تھذیب کے رنگ میں رنگنا اور مسلمانوں کو ان کے بنیادی تصورات جیسے دین، عقیدہ، زبان ،تاریخ سے علیحدہ کردینا اس مقصد کے لیے ایسے انگلش اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں مغربی تھذیب کا رنگ غالب کرکے مسلم بچوں کے ذھنوں کو باآسانی مفلوج اور پراگندہ کیا جاسکے۔
مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانوں کی دینی شناخت اور تھذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑانا زھر آلود مغربی تھذیب کو فروغ دینا تھایہی وجہ ھے کہ مسلم معاشرہ بڑی تیزی سے اخلاقی قدروں سے دامن چھڑاکر مغربی تھذیب کی اندھی کھائی کی طرف بگٹٹ بھاگا جارھا ھے۔
ذرائع ابلاغ اپنا پیغام اپنی فکر دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایک وسیع میدان تصور کیا جاتا ھے یہاں بھی مغرب اپنی پروردہ این جی اوز سے کام لےکر اپنی ثقافتی یلغار مسلم سماج پر تھوپنے کی کوشش میں اعلی اسلامی اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کے ساتھ فحش ومنکرات کو پروان چڑھاکر مسلم معاشرے میں انتشار وانارکی پھیلانے کا ذریعہ بن رھا ھے۔
یوتھ کو مغرب سے روشناس کروانے کے لیے وہ تمام ذرائع استعمال کر رھا ھے جس میں سیکولرازم سب سے خطرناک ذریعہ ھے، کیونکہ اس کا مقصود دین کو عام سیاسی اقتصادی اور تعلیمی زندگی سے الگ تھلگ رکھنا ھے یعنی کسی دین سے جڑے بغیر نظام زندگی قائم رکھنا۔
اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ڈراموں اور فلموں میں ایسے ماحول کی عکاسی کرنا جو مغربی تھذیب کا چربہ ھو تاکہ نوجوان نسل گمراہ ھو سکے ساتھیوں اس پر آشوب ماحول میں نسل نو کی آبیاری ھے کٹھن ,بظاھر صورت حال بہت مایوس کن ھے صورت اصلاح کچھ نظر نھیں آتی مگر اھل درد کے لیے مایوسی کفر ھے ؎
خودبخود ٹوٹ کے گرتی نھیں زنجیر کبھی بدلی جاتی ھے بدلتی نھیں تقدیر کبھی
آج کی ماں کوضرورت اس امر کی ھے نسل نو کی پرورش کے امور میں نسل کومغرب کے جال سے نکالنے کے لیے دامے درمے سخنے نصیحت اسلامی تھذیب وثقافت سے واقفیت مذھب کا درست تصور جدید ترین علوم و سائنسی تحقیقات سے متعارف کرانا ماں بچوں کو انگلش اسکول وکالج میں بھیج کر اپنے آپ کو کبھی بری الذمہ نھیں سمجھتی۔ ماں کبھی بھی اپنی تربیت سے چوکتی نھیں اس کو پتاھے نسل نو کی تربیت میں جو بھی عوامل ھوں بچوں کا ذھن خام ھوتا ھے اس میں اثر پزیری بھی زیادہ ھوتی ھے انکا ذھن پگھلے موم کی مانند ھوتا ھے اسے جس سانچے میں ڈھالیں ڈھل جاتا ھے۔
حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بھی بچوں کو شائستہ اور مھذب بنانے کے کام کو ماں باپ کی طرف سے بہترین اور مفید قرار دیا ھےآپ نے یہ بھی فرمایا ھے تم اولاد کی عزت کرواور انھیں اچھی تھذیب سکھاؤبچپن میں اسلامی اخلاق وآداب کی تربیت کے نتائج مستقبل میں بڑے شاندار نکلتے ھیں۔باپ بھی نسل نو کی تربیت میں ایسے سازگار حالات مھیا کرتا ھے کہ موجودہ نسل پچھلی نسل سے زیادہ ترقی یافتہ زیادہ مھذب اور زیادہ اللہ والی ھو یہ ماں ھی ھوتی ھے جو اپنی نسل کی تربیت میں دن رات ایک کردیتی ھے۔ میں اپنی تقریر اس شعر پر ختم کرتی ھوں ؎
جو رکے تو کوہ گراں تھے ھم جو چلے تو جاں سے گزر گئے راہ یارھم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا