میرا شوہر میرا فخر

8مارچ کے شور شرابے میں بہت ساری آوازیں سماعت سے ٹکرا ٹکرا کر واپس جارہی تھیں، عورت کی آزادی عورت مارچ اپنا کھانا خود گرم کرو، ان آوازوں کے ساتھ ماضی کے دریچے کھلتے چلے گئے ،حب میری ذمہ داری بطور پرنسپل ایک پس ماندہ ناخواندہ علاقے حب میں ساکران روڈ جامعات المحصنات میں لگی ، دوران داخلہ والدین سے ملنے کا اتفاق ہوا جو خواتین کسی وجہ سے نہیں آسکتی تھیں، ان کے شوہر بچیوں کے داخلہ کروانے آتے تھے، جو باپ پہلی جماعت تک پڑھا ہوا نہیں تھا، اس کے ارمان اپنی بچی کے لیے بہت اونچے تھے،

باجی میں اپنی بچی کو پڑھانا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں یہ ہماری طرح جاہل نہ رہے باجی میرے بیٹے بھی پڑھ رہے ہیں، میری بیٹی بھی پڑھے گی، میں اس ان پڑھ باپ کے غربت سے اٹے چہریں پر بیٹی کے لیے محبت تحفظ اور مستقبل۔کی روشن کرنیں دیکھتی رہ گئی بیٹیاں اتنی عظیم ہیں، اس پس ماندہ علاقے میں پھر یہ آزادی کا شور کیوں؟ مجھے وہ لمحات بھی یاد آرہے ہیں ،جب الخدمت کا جہز بکس دینے کے لیے مجھے ایک بچی کے گھر تحقیق کے لیے جانا تھا، کہ آیا یہ مستحق ہیں کہ نہیں ڈرائیور پتھریلے راستے سے گزر کر ایک گھر کے آگے رکا باجی یہی گھر ہے، گھر کے اندر داخل ہوئی تو مٹی کے فرش پر پاوں اندر تک چلے گئے لکڑی سے نکلتے دھوئیں سے آنکھیں جلنے لگیں، ایک خاتون بڑی سی چادر کو درست کرتی دوڑی دوڑی میرے استقبال کو آئی باجی آئیے اندر وہ ایک اندھیرے کمرے میں مجھے لے گئی۔

وہاں بھی مٹی کا فرش تھا، اس نے ایک چوکی لاکر مجھے بٹھایا میں ماحول دیکھ کر قائل ہوچکی تھی کہ یہ ضرورت مند ہیں لیکن اب کچھ بات تو کرنی تھی کتنے بچے ہیں ؟تمہارے اور بیٹی کہاں ہے؟ تمہاری جس کی شادی ہے، میں نے اس عورت کے چہریں کو دیکھتے ہوئے کہا جوکہ ہڈیوں کا ایک مجسمہ تھا، لیکن پرسکون تھا باجی میری چھہ بیٹیاں ہیں۔ میں نے چونک کر اس کو دیکھا اور بیٹا نہیں باجی بس رب کا احسان ہے ،اس نے اپنی رحمتوں سے نوازا ہے، میں ششدر حیران پہلو بدلتی رہ گئی، اس گھر میں جہاں میں بیٹھی تھی بظاہر اتنا اجڑا ہوا بنا سہولتوں کے لیکن اس عورت کی سوچ کی وجہ سے کتنا زرخیز کسی کے لڑنے کی آوازیں آنے لگی میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کو دیکھا کچھ نہیں باجی میری ساس دماغی مریض ہے، اس کو دورہ پڑتا ہے، ہر دوسرے دن اور میرا دیور ہے، جو ہیروئن کا نشہ کرتا ہے، اپنی ماں سے لڑتا رہتا ہے، تمہارا شوہر کہاں ہے؟ مجھے اتنا اہم سوال اب یاد آیا باجی اس نے کیا کرنا ہے گھر میں پڑا رہتا ہے ،کیوں کوئی نوکری نہیں کرتا باجی 12 سال ہوگئے اس کو پاگل ہوگیا ہے ،بہت علاج کروایا دماغ کا لیکن فائدہ نہیں ہوا ۔

تو تم لوگوں کا گزارا کیسے ہوتا ہے؟ باجی ہم ماں بیٹیاں مل کر کام کرتی ہیں، اللہ کا شکر ہے، بس گزارا ہوجاتا ہے، گھر اپنا ہے، باجی یہ بھی اس کا کرم ہے، میں اس کے شکرگزار رویے پر حیران تھی، 6بیٹیاں پاگل ساس ،نشئی دیور، پاگل شوہر کیسے یہ عورت ان مسائل کے ساتھ اتنی مطمئن ہوسکتی ہے ؟کہاں ہے تمہارا شوہر ملواو مجھے تجسس ہوا کہ آیا یہ جس کو پاگل کہہ رہی ہے وہ کتنا پاگل ہے جی آئیے وہ مجھےگھر کے پچھلے حصے میں لے آئی ایک راہدری کچا حصہ تھا میں جانے لگی تو اس نے مجھے روک دیا باجی ابھی زنجیر سے باندھا ہے اس کو مجھے زنجیروں سے بندھے ہاتھ کھڑکیوں سے دکھاِئی دے رہے تھے باجی یہ کپڑے اتار کر بیٹھا ہے اس لیے آپ نہ دیکھیں۔

میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس عورت کو دیکھتی رہی بہن جب یہ اتنا زیادہ پاگل ہے تو اس کو گھر میں کیوں رکھا ہے پاگل خانے بھیجو بےوقوف عورت بچیوں والا گھر ہے میرے منہ سے بےساختہ نکلامیری بات سن کر وہ تڑپ گئی تواتر سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے باجی میرا شوہر ہے میرے بچوں کا باپ میں کیسے اس کو پاگل خانے چھوڑ دوں میں اس کو نہلاتی ہوں صاف کپڑے پہناتی ہوں شیو بناتی ہوں اس کی پسند کا کھانا کھلاتی ہوں پاگ خانے والے اس ایسا خیال تو نہیں رکھے گے اس کا چہرہ آنسووں سے تر تھا اور شوہر سے عقیدت اور محبت سے لبریز لہجے کے آگے میرا وجود ڈھیر ہوچکا تھا وہ شوہر جو 12سال سے ہر لحاظ سے معذور ہے کسی قسم۔کااس۔کی زات سے بیوی بچوں کو فائدہ نہیں ایسے شوہر کے لیے یہ سوچ ؟شدت غم سے میرا دل پھٹ رہا تھا مرد کی اہمیت کا اس عورت کو کسقدر ادراک ہے واپسی کا سفر بہت کٹھن تھا میری مرضی اپنا کھانا خود گرم کرو اپنا موزہ خود ڈھونڈو ان نعروں میں مجھے وہ عظیم عورت بہت اونچی بہت اونچی نظر آرہی ہے۔

جواب چھوڑ دیں