اے اللہ تو غفور ، شکور ، جبار، وہا ب ہے اور تیری ایک صفت حفیظ ہے۔ تحریک آزادی کے مسلمان رہنمائوں نے میرا نام پاکستان رکھا اور نعرہ تھا ۔پا کستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ… .. مجھے حاصل کرنے کیلئے لا کھوں قربانیا ں دی گئیں میری جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے ہزاروں مسلمان نوجوانوں بوڑھوں ، عورتوں، اور پھول جیسے معصوم بچوں نے پانی کی جگہ میری جڑوں کو مضبوط در مضبوط کرنے کے لیے اپنا لہو ڈالا ۔
مجھے تنا ورکرنے کے لیے بے سہا را بہنوں کے بھا ئی سنگینوں کی نوک پر جھوم جھوم کر لہرائے ۔ گھر جلے مائوں نے اپنے معصوم بچوں کی تڑپتی ہوئی لا شوں کا نظارہ کیا ۔ مجھے حاصل کرنے کے لیے میر ی نوجوان بیٹیوں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا ۔ اے اللہ تو آسمان پر زمین پر ہونے والے تمام نظارے دیکھ رہا تھا کہ پا کستان کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کیے گئے۔
اے اللہ ۔۔۔۔اب مجھے جوان ہو ئے 72سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اور میں جوانی سے بڑھا پے کی طرف رواں دواں ہوں ۔ مگر افسوس صد افسوس میری ایک خواہش تھی میری آرزو تھی کہ میں اپنی پشت پر اسلام کی بہا ریں دیکھوں اے خالق و مالک مجھ پر بسنے والوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ۔ میری پشت پر چند بسنے والے مغرب زدہ لوگوں نے میری پشت کو گندا کردیا مسلما نوں کا لبادہ اوڑھ کر بے حیا ئی اور فحاشی کے اڈے کھول دیئے ۔
اے اللہ میں 72سال سے دیکھ رہا ہوں کہ چہرے بدل بدل کر مغرب زدہ لوگ برسراقتدار آتے رہے اور میرے اسلامی نظریات و افکا ر کو روندتے رہے ۔ آج میرے دارالخلا فہ کی سڑکوں پر بے پردہ مغر ب کی تقلید کرنے والی بے حیا ء اور بے غیرت عورتیں نعرے لگا رہی ہیں ۔
میرا جسم ۔میری مرضی…..، کیا پاکستان کو اس لیے بنایا گیا تھا..! کیا اسلام زندہ باد کا نعرہ اس لیے لگایا تھا…!
چند مغرب زدہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیا ں سڑکوں پر نکل کر بے مہا ر، بے حجاب حرص وہوس میں ڈوبی ہوئی نیم برہنہ حقوق نسواں اور آزادی کے نعرے بلند کر رہی ہیں۔میرے اوپر حکومت کرنے والے خاموش بیٹھے ہیں ۔ یہ مٹھی بھر آزاد، بے حیا ء خواتین الٹے سیدھے نعرے لگا رہی ہیں ۔
اے اللہ تو اپنا رحم فرما میرے پشت کو بے حیا ئی سے بچا ۔ اے اللہ آج مغرب اپنی سازشوں میں کا میا ب ہو گیا ہے۔ اُس نے مادہ پرستی کا ایسا زہر دیا ہے۔ جو ہم خوش ہو کر پی رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں کہ یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہے یا فائدہ مند ۔ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کو چھوڑ دیتی ہیں وہ قوم تبا ہ و برباد اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بن جا تی ہیں ۔
آج میری پشت پر بسنے والے یہو دو نصاریٰ کی گندی تہذیب کو کامیا ب سمجھتے ہیں ۔ اور اُدھر حکمران کہتے ہیں کہ ہم پا کستان کو ریا ست مدینہ بنا ئیں گے ۔ آج ہما رے کا لجوں ، سکولوں، اور یونیورسٹیوں میں نا چ گانے، بے حیا ئی کے پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں اور اس شیطانی کام میں ادارے کی کا میا بی تصور کیا جا رہا ہے۔ رقص و سرور اور موسیقی کو روح کی غذا سمجھا جا رہاہے۔
سوشلزم اور لبر ل ازم سوچ کے حامل حکمران اور ریا ست مدینہ کے آرزو مند آنکھیں بند کرکے اپنی دنیا میں مگن ہیں کہتے ہیں کہ جب کبوتر کی موت آتی تو بلی کو دیکھ کر وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ آج تعلیمی اداروں میں با قاعدہ ناچ گانے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ عورت کی اس سے بڑھ کر توہین کیا ہو گی کہ اُس کو بازاری عورت بنا دیا گیا ہے۔
کسی نے ٹھیک کہا تھا ۔ انسان کی جب مت ماری جا تی ہے تو اس کی بصیرت اور بصارت پر پردہ پڑ جا تا ہے۔ اور یہی موجودہ دور کی عورت کا المیہ ہے۔ جو اسلام کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ آج عورت کو شو پیس بنا دیا گیا ہے۔ وہ مغرب جو حقوق ، حقوق کے نعرے لگا رہاہے۔ آج اُس کا اپنا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہو گیا ہے۔ فرانس میں تین ہزار خواتین سے پوچھا گیا سوالا ت کیے گئے اور رپورٹیں بنا ئی گئیں ۔
تین ہزار خواتین میں سے دو ہزار پانچ سو خواتین نے اپنے خیا لا ت کا اظہا ر کرتے ہو ئے کہا کہ ہم گھروں میں رہنا چاہتی ہیں ۔ اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام دیا ہے۔ کہیں وہ ماں ہے، کہیں وہ بیٹی ، کہیں بیوی اور بہت سے رشتے جوڑ کر ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی ہے۔ مذہب اسلام ایک آفاقی دین ہے۔ اس میں عقل کو دین کے تابع کردیا گیا ہے۔ کیونکہ عقل کا تعلق انسانی ذہن سے ہے اس میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے ۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے کھلے عام اعلا ن کیا کہ اے انسانو میں اللہ ہو ں یہ زمین و آسمان میں نے بنا ئے ہیں ۔ اور اس پر میرا ہی حکم چلے گا۔ تم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے رہو ۔ مگر تف ہے اے مسلمانو تونے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے۔ مغرب میں سورج غروب ہو تا ہے ۔ مغرب کی گندی تہذیب کو چھوڑ دو ۔ مغربی تہذیب میں بیٹے کو پتا نہیں کہ میرا با پ کون ہے۔۔۔۔۔؟بیٹی کو معلوم نہیں کہ میری ماں کون ہے۔۔۔۔؟ تم ایسی بے غیرت ، بے حیا ء اخلا ق سے عاری تہذیب کے پیروکا ر بننا چاہتے ہو ۔ جو اللہ کے بنا ئے ہو ئے نظام سے ٹکراتا ہے اللہ اُس کو پا ش پا ش کردیتے ہیں ۔
آج سربا زار اللہ کے بنا ئے ہو نظام پر تنقید کی جا رہی ہے۔ پھر عذاب تو آئیں گے۔ بے موسم با رشیں برسیں گی ۔ ڈینگی جراثیم اور کرونا وائرس انسانوں کی بستی کی بستیاں تبا ہ کردیں گے ۔
فطرت افراد سے اغما ض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گنا ہوں کو معاف
وہ ملک جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر حاصل کیا گیا تھا آج اُس ملک میں سو دکے اڈے کھول دیئے گئے ۔ رشوت ستا نی کو اپنا حق سمجھا جا رہے ہے ۔ لوٹ مار ملا وٹ مافیا رات و رات امیر بننا چاہتی ہے تو آپ ہی بتائیں کی ایسی زمین پر اللہ کی رحمت کیسے آئے گی …..یہی تقدیر ہے اقوام کی دنیا والو؎
سوچ گھِس جا ئے تو انسان بھی گھِس جا تے ہیں
جن کے مٹ جائیں عزائم ہو س کے ہا تھوں
بونے بَن بَن کے بِن موت کے مرجا تے ہیں