آدم کی بیٹی عورت میری ماں، عورت میری بہن، عورت میری بیوی اور پھر عورت میری بیٹی۔ عورت کا رتبہ میری نظر میں بہت ہی اہم قرار پایا جب سے اس بات کا علم ہوا اپنے حوش کے بعد سے کہ کس طرح سے ایک ماں اپنے بچے کو نو ماہ تک اپنےرحم میں لیے رکھتی ہے اور اس کا خیال رکھتی ہے اور کس تکلیف سے گزرتی ہے۔ اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا مگر کچھ حد تک سنی بات کو محسوس کر کے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی جان پہ کھیل کے وہ اس پاک بدن کو جنم دیتی ہے اور اس کی اس خوشی کو تولا یا ماپا نہیں جا سکتا ہے۔
پھر اس کی اچھےطریقے سے پرورش کرتی ہے اور رات کا کوئی بھی پہر ہو اسکی بھوک مٹاتی ہے اور طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرتی ہے مگر اپنے بچے کو سکون دیتی ہے اور دعا کرتی ہے ہر وقت اس کو تا حیات سکون اور کامیابی ملے اور پھر اسکی آخرت کے لیے بھی دعا گو رہتی ہے ،یہ ہے ماں۔۔ہر دین کا امتیازی وصف ہے اور اسی طرح اسلام کا امتیازی وصف “حیاء” یے. حیاء، اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے. ایمان وحیاء لازم و ملزوم ہیں اور عورت کی پاک دامنی کا تاج حجاب ہے۔
عورت کی عزت اس کا وقار اس کی سر بلندی ہی معاشرے کی ترقی کا ضامن ہے عورت ہی کل سرمایہ ہے ۔ ایک بگڑی ہوئی عورت پورے معاشرے کو اخلاقی زوال اور برائیوں کی دلدل میں پھنسا سکتی ہے اور عورت کے بگڑ جانے سے معاشرے کا زوال ہوتا ہے، بے حیائی ہر شے کو داغدار بنا دیتی ہے مگر شرم و حیاء اسے زینت عطا کرتی ہے۔ہم آج خوش نما نعروں کے پیچھے عورت کی عزت کو مجروح کر رہے ہیں۔میں اس نام نہاد عورتوں کے حقوق کے علمبرداروں اور اس عورت مارچ منتظمین کو تاریخ کا آئینہ دیکھانا چاہتا ہوں۔
یہ عورت زندہ دفن کردی جاتی تھی ،غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی تھی، معاشرے میں بوجھ سمجھی جاتی تھی، مردہ شوہر کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی تھی ،اور تو اور وراثت میں کوئی حصہ بھی نہیں دیا جاتا تھا جیسا کہ میں نے اپنے ایک کالم “عورت کی میراث” میں یہ بات مکمل طور پر بیان کی ہے ۔ اس میں میں نےبتایا ہے کہ کس طرح اسلام نے عورت کو وراثت میں حق دیا اور اہمیت دی، اسی طرح اسلام نے کہاکہ یہ عورت تیری ماں ہے اس کی خدمت کرو جنت مل جائے گی۔ یہ عورت تیری بہن ہے اچھا سلوک کرو عمر بڑھ جائے گی، یہ عورت تیری بیوی ہے اسے خوش رکھو زندگی سنور جائے گی، یہ عورت تیری بیٹی ہے اچھی پرورش کرو حضور کاساتھ نصیب ہو جائے گا۔
میرے اللہ باری تعالیٰ نے اور میرے دین اسلام نے عورتوں کو مردوں کے برابر نہیں بلکہ عزت اور مرتبے دیئے ہیں اورکہاکہ یہ ماں ہے، باپ سے زیادہ خدمت کرو، یہ تیری بہن ہے بھائی سے زیادہ عزت دو ، یہ تیری بیٹی ہے بیٹے سے بڑھ کر شفقت سے پیش آؤ، یہ تیری بیوی ہے بہترین سلوک کرو، دو جسم ایک جان ہوکر رہو۔ اللہ باری تعالیٰ نے فرمایا یہ جسم تمہارا نہیں یہ اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، مگر آج کا نعرا ” میرا جسم میری مرضی” شادی نہیں آزادی مانگ کر عورت سے ماں کا رتبہ چھیننے کی بات کی جا رہی ہے، عورت سے بہن کا مقام لوٹنے کی بات کی جا رہی ہے اور تو اور بیوی سے پاک دامنی اور شرم و حیا چھیننے کی بات کی جا رہی ہے۔
عورت ایک بے حد قابل عزت اورمحترم مقام رکھتی ہے۔ اسلام کے احکامات کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میںآپس میں تعاون کریں ۔ میرے ملک میں عورت کو گھر کی زینت اور ملکہ بھی مانا جاتا ہے ۔ ہر وہ رشتہ جو عورت سے جڑا ہوا ہے ہم اس کو قبول کرتے ہوئے اپنی عزت مانتے ہیں، مگر کچھ لوگ عورتوں کی عزتیں پامال کرتے ہیں ، میرے ملک کی ماؤں، میری بہنوںاور میری بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، یہ انسانیت سے گری ہوئی گھٹیا حرکت کرنے والےمرد کے بھیس میں چندہی ملت کے ناسور ہیں جو انسان کہلانے کے ہرگز ہرگز قابل نہیں ۔