گزشتہ چند سالوں سے” یوم خواتین ” کو سوچی سمجھی ا سکیم کے تحت بلاوجہ مردوزن کے درمیان حقوق کی جنگ بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے، مردوں کو عورت کا دشمن بنا کر ان کے مد مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے،ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہمارے قابل احترام محرم رشتے باپ، بھائ ،شوہر اور بیٹے 8 مارچ یوم خواتین کو ہمارے ہاتھ تھام کر عہد کرتے کہ وہ ہمارے”قوام” ہونے کی پوری ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور ہر صورت اسے نبھائیں گے،اپنے گھر کی عورتوں کو وراثت میں ان کا مکمل شرعی حصہ دیں گے ، انہیں تعلیم کے بھر پور مواقع فراہم کریں گے، اور زندگی کا ہم سفر منتخب کرنے کے لیے کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے گا وغیرہ ، یہ اس دن کو منانے کی بہترین صورت ہوسکتی ہے ۔
مگر نام نہاد شہرت اور غیر ملکی فنڈز کی بھوکی این جی اوز نے تمام scenarioکو یکسر طور سے تبدیل کر دیا اور آج یہ صورتحال ہے کہ گھر کی عورت اپنے ہی گھر کے محافظوں اور محرم رشتوں کا ہاتھ چھڑا کر ہوا میں لہراتی پتنگ کی طرح اونچی اڑان پر اڑنا چاہتی ہے چاہے اس اڑان کے نتیجے میں اسکا ناتہ مرکز (خاندانی یونٹ )سے کتنا ہی کمزور ہو جائے یا بھلے ٹوٹ ہی جائے ۔ گزشتہ دنوں رائٹر خلیل الرحمان صاحب اور وومین رائٹس ایکٹیوسٹ ماروی سرمدصاحبہ کے درمیان عورتوں کے حقوق پر چھڑنے والی بحث کے درمیان نہایت ناشائستہ اور abusive زبان استعمال کی گئ ۔
یہ دونوں پڑھے لکھے افراد پاکستانی عورت کو درپیش مسائل کا خاتمہ کیا کریں گے جو اپنے غصے، اپنی انا ،اپنی زبان کو بھی قابو نہیں کر سکتے !!ہم خواتین انہیں اپنے حقوق کا علمبردار ہرگز تسلیم نہیں کرتی ہیں ، خلیل الرحمان صاحب کا رویہ planted اور ڈرامائ تھا جس میں مصنوعی پن کی جھلک تھی ۔ایک طرف تو وہ خود کو عالم فاضل اور مفکر ومدبر ثابت کرتے ہیں مگر دوسری طرف دوران گفتگو ماروی سرمد صاحبہ کی معمولی سی مداخلت پر لائیو نیشنل ٹیلی وژن پر تمام اخلاقی حدود کو توڑتے ہوئے نہایت low lavel کی زبان استعمال کرتے دکھائ دیئے –
ہم اس دین کے پیرکار ہیں جس کی تعلیمات کے نتیجے میں وہ کردار تشکیل پائے کہ حق و باطل کی جنگ جاری ہو اور دشمن کی گردن تلوار کی زد میں آجائے ،پر دشمن آپ کے منہ پر تھوک دے تو ، ،زبردست طاقت وبہادری ، اور سب کچھ کر گزرنے کا اختیار ہونے کے باوجود بھی دشمن کو چھوڑ دیا جائے ،کہ اس وقت قتل کرنا ذاتی عناد کے زمرے میں اجائے گا ،خلیل الرحمان صاحب ذرا جائزہ لیجئے آپ کے پاس کیا justification ہے اپنے انداز گفتگو کی ؟آپ کےاس غیر مہذب رویے کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں ۔
دوسری جانب حقوق نسواں کی نام نہاد این جی اوز کی نمائندہ ماروی سرمد صاحبہ نے اپنے بے باک جارحانہ انداز گفتگو سے بھی کوئی قابل تقلید مثال پیش نہی کی ،اگر اپ خود کو کروڑوں خواتین کے حقوق کی نمائندہ اور رول ماڈل سمجھتی ہیں تو آپ کو اپنے کرداروگفتار سے ثابت بھی کرنا ہوگا۔آپ کے اس ایک جملے نے آپ کی سوچ اور نظریات کی قلعی اتار دی”کہ “Iam proud that i am divorcedاگر آپ یہ کہتیں کہ” مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہات کی وجہ سے میں اپنے ازدواجی رشتے کو قائم نہ رکھ پائی اور یہ کہ ، تمام عورتوں کے لیے دعاگو ہوں کہ وہ اپنے فیملی یونٹ کو برقرار رکھیں کیونکہ معاشرے کو پاکیزہ بنانے اور نئ نسل کی آبیاری کے لیے یہ نہایت نا گزیر ہے ” تو پھر شائد ہمیں لگتا کہ آپ عورتوں کی بھلائی کی خواہش مند ہیں ، مگر آپ کے الفاظ ہی آپ کی بدنیتی کو صاف ظاہر کر رہے ہیں ۔
آپ اس ذومعنی اور اچھوتے نعرے ” میرا جسم میری مرضی ” کی وکالت تو کر رہی ہیں ،کیا آپ کو اس بات کا ذرا سا بھی ادراک ہے کہ آپ اس نعرے کی آڑ میں نوجوان نسل کو کس بھیانک راستے کی طرف لے جا رہی ہیں کیا آپ نے مغربی عورت کو انہی نظریات کی بدولت پستی اور ذلت کی گہرائیوں میں گرتے ہوئے نہیں دیکھا جب آزادئ نسواں کے نام پر عورت کو بازار کی ایک product بنا دیا گیا ۔ women empowerment کے دلفریب نعروں کے ذریعے اسے گھر اور شوہر کے مضبوط حصار سے نکال کر سر راہ پہنچا دیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ گھر جو محبت ،چاہت اور امنگوں کا گہوارہ تھے وہی گھر حقوق وفرائض کی دوطرفہ جنگ کا بھیانک نمونہ بن کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ،اور اپنی سب سے بڑی ذمہ داری یعنی نسل نو کی پرورش سے یکسر غافل ہو گئے ۔
ایسے گھروں کے اکثر بچے معاشرے کا کار آمد حصہ بننے کے بجائے جرائم اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔آپ کے ہوشربا نظریات جاننے کے بعد کوئی بھی ذی شعور انسان اپنی بہنوں، بیٹیوں کو آپ کے ایجنڈے کا شکار ہونے نہیں دے گا ۔اگر آج خواتین استحصال کا شکار ہیں تو اسکی وجہ اجتماعی معاشرتی کردار ، ناقص تربیت ،اسلامی شعائر سے دوری ہے ،اگر خواتین کو اسلام کےعطا کردہ بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنا دی جائے تو پھر ہمیں” وومین ڈے ” کو منانے کی بھی ضرورت نہ رہے ،آج جیو سوپر کے مارننگ شو میں ” خواتین کی ترقی کی وفاقی وزیر شہلا رضا “صاحبہ کو سننے کا موقع ملا وہ بھی اسی نعرے ” میرا جسم میری مرضی ” کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل دیتی نظر آئیں ۔
مگر ان کے دلائل سن کر بہت مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اس بھونڈے نعرے کو خواتین کے ساتھ پیش آنے والے تیزاب گردی اور جبری زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے اقدام کے جواز کے طور پر پیش کر رہی تھیں ۔شہلا رضا صاحبہ کیا اپ یہ بتانا پسند کریں گی کہ اس نعرے کی بدولت مجرمانہ زہنیت کے افراد کی اصلاح اور روک تھام کیسے ہو گی ؟ کیا اس نعرے کی بدولت کوئی معجزہ ہو جائے گا اور ریپسٹ ، ریپ کرنا چھوڑ کر نمازی پرہیز گار بن جائے گا ،یا پھر اس نعرے کی جادوئی طاقت کی وجہ سے جاہل مرد عورتوں پرتیزاب پھینک نہیں پائیں گے !!ایسا کچھ بھی نہی ہونے والا!! اگرہم سب معاشرے کی حقیقی اصلاح چاہتے ہیں تو اسلامی شعائر کو رائج کرنا ہوگا ۔
مسلم عورتوں کی رول ماڈل امہات المومنین اور صحابیات کی تابناک زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ،جن میں بہترین بزنس وومین کی روشن مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،بہترین عالمہ اور قانون ساز فہم و ادراک کی حامل حضرت عائشہاصدیقہ رضی اللہ عنہا،بہترین مشاورت کرنے والی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا،جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا،یزید کے دربار میں فصاحت اور بلاغت سے بھرپور خطابت کر کے دربار کو ہلا کر رکھ دینے والی حضرت زینب رضی اللہ عنہا۔
پہلی شہید اسلام حضرت سمیہ رضی اللہ ،محافض ناموس اسلام دلیرو بہادر حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا جیسی اولوالعزم پاکیزہ ہستیاں موجود ہیں ۔ اگر ہم کسی بھی نوعیت کے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں ، چاہے وہ عورت ہو یا مرد تو پھر ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں میں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ،کیونکہ فرد ہی معاشرے کی تعمیر کے ضامن ہیں ،اگر فرد کی اصلاح کر دی جائے تواس سے معاشرے کی اصلاح کی راہ خود بخود ہموار ہوجاتی ہے۔