فیمنزم کیا ہے ؟ذرا جانیے تو

فیمنزم کیا ہے ؟ مرد ہو یا عورت باہر آکر کہے کہ مجھے میرے گھر والوں سے انصاف دلوا دو ،ماں باپ اپنی اولاد کیخلاف روڈ پر آجائیں ،اولاد اپنے والدین سے شکایات کی فائلیں اٹھا کر میدان میں اتر آئے ! اور شرم ورم بالکل اتار دی جائے ! بوائے اینڈ گرل فرینڈز بھی ایکدوسرے سے شکووں کی پٹاری کھول کر سڑکوں پہ نکل آئیں ! یہ دن ہوتا ہے جب کوئ ملک ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے !

جتنی جلدی ترقی چاہئے ، اتنا جلدی یہ کام کرنا پڑتا ہے ! کیونکہ عدالتیں ، مارکیٹ ، ملٹی نیشنل کمپنیز ، کارپوریٹ کلچر ، ڈیموکریسی یہ سب تب ہی پروان چڑھتے ہیں اور انہی کی کامیابی کا نام ملکی ترقی ہوتا ہے ۔

کیونکہ جدید مارکیٹ عدالتی و پارلیمانی ، ڈیموکریٹک سیٹ اپ اور کارپوریشنز کی ٹوٹل بقا دنیا سے فیملی یونٹ کے خاتمے و تباہی پر منحصر ہے ! نظامِ سرمایہ داری خاندانی نظام پر بہیمانہ ضربیں لگائے بنا چار سانسیں بھی نہیں لے سکتا ،آپ دینِ اسلام کی بات کریں ! اسلام مرد و عورت کے حقو ق کا ایسا کوئی عنوان سرے سے باندھتا ہی نہیں ،بلکہ اسلام نے ہر کسی کو جو بھی حقوق دئیے ہیں ، وہ مرد و عورت کے آپسی مخصوص تعلقات سے وجود میں آنے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئےعطا کئے ہیں۔

چنانچہ اسلامی معاشرت میں حقوق کی بنیاد ؛شوہر ، باپ ، بیوی اور ماں وغیرہ ہونا ہے نہ کہ کسی کا خالی مرد یا عورت ہونا یعنی شوہر کے فرائض و ذمہ داریاں ،بیوی کا فریم ورک ، باپ اور ماں کی رسپانسبلٹیز مطلب اسلامی معاشرت کی بنیاد فرائض ہوتے ہیں ، نہ کہ حقوق یہ ایک بنیادی فرق ہے ، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔لیکن جدید علمی فریم ورک اور ڈسکورس ؛ (مغربی ڈسکورس) حقوق کوبنیاد بنا کر بات کرتا ہے کیونکہ یہ ان تعلقات و رشتوں پر خالق کے عائد کردہ فرائض کوسرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ڈسکورس عقیدۂ Freedom” سے جنم لیا ہے ، عقیدہ بندگیء خدامیں سے نہیں نکلا۔

چنانچہ یہ ؛ خاندانی نظام کو نیست و نابود کئے بنا نہیں رہ سکتا ۔ ظاہر ہے جب کوئ آزاد ہے تو وہ خالق کے باندھے ہوئے رشتوں و تعلقات کو کیونکر قبول کرے گا ؟ اور وہ خدا کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کا پابند کیوں ہوگا ؟ دوسری بات اسلامی ڈسکورس میں (رشتوں میں بندھنے کے بعد) مرد و عورت ؛ ہر دو کے فرائض الگ الگ ہوتے ہیں ۔ لہذا جب فرائض الگ الگ ہوں تو حقوق مساوی نہیں ہوسکتے ،جب فرائض ہی مختلف ہونگے تو حقوق کی لسٹ و فہرست بھی مختلف ہی ہوگی ،لیکن عقیدۂ فریڈم اور عقیدۂ Equality کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دنیا بالآخر رشتوں میں رہنے سے انکاری ہوجاتی ہے اور حقوق کی سیاست عام ہوجاتی ہے (ڈیموکریسی کی سربلندی بھی تبھی ممکن ہوتی ہے)۔

حالنکہ ایک متوازن و فطری معاشرت مرد و عورت ہر دو کے فرائض کے بیان کے بغیر ایک برباد و لٹی پھٹی معاشرت ہوتی ہے جسے پھر معاشرت کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے تو درحقیقت اِس وقت دنیا کا مسئلہ عقیدے کامسئلہ ہے اور کوئی مسئلہ نہیں۔ جدید ریاستیں عقیدۂ فریڈم کی بنیادوں پر تعمیر ہوئ ہیں اور دنیا میں اِس وقت کہیں ، کوئ ایک بھی ریاست ایسی نہیں پائ جاتی ؛ جو فیملی یونٹ کو پاش پاش کئے بغیر ترقی یافتہ ہوئی ہو کیونکہ انسانی Freedom کے مقاصد و اہداف کا حصول خاندانی نظام سے بغاوت کھڑی کئے بنا ممکن نہیں۔

اب یہ وہم بھی دور ہوجانا چاہئے کہ فیمنزم کوئی ردعمل کی تحریک ہے قطعاً نہیں آپ کا معاشرہ عورت کی تکریم و توقیر کے معاملے میں %100 بھی کامیاب ہو فیمنزم تب بھی یہاں تحریکیں کھڑی کرے گا ،بلکہ بالاولٰی کرے گا ،اور بہت زیادہ سنجیدگی سے کرے گاکیونکہ Feminism ؛ بنیادی طور پر مرد ہو یا عورت ؛ ہر دو کو فری و خود مختار کر دینے کی تحریک ہے ! اور Freedom کے اصول پر ؛ ہر کوئ دوسرے کیلئے Other کی حیثیت میں ہوتا ہے ، کوئ کسی کا کچھ لگتا وگتا نہیں ہوتا اور یہ End Result ہوتا ہے کہ میاں بیوی بھی ایکدوسرے کیلئے Other ہو جاتے ہیں ۔ (اللہ اعلم باالصواب )

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں