گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی 8مارچ کا دن خواتین کے حقوق کادن منایا گیا ہے ۔یہ مرض جو کہ مغرب زدہ افراد کا پھیلایا ہوا ہے جس کا سرخیل عالمی ادرہ برائے حقوق انسانی ہے جو کہ اقوام متحدہ کا بغل بچّہ ہے۔ روز بروز یہ مرض بڑھتاجارہا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جس طرح مکھیاں زخموں کی پیپ اور گندگی کے ڈھیر پر بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔
اسلام جو حقوق ، عزت اور احترام ایک عورت کو ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کی صورت میں دیتا ہے ۔اس سے مغرب زدہ طبقے کو زخم اسی سےلگے ہیں ان ہی زخموں اور گندگی کے ڈھیر وں پر یہ مکھیاں بھنبھنارہی ہیں۔
حقوق کی ادائیگی کرنا بلاشبہ ایک نیک اور پاکیزہ کام ہے وہاں ایک ذمّہ داری بھی ہے ۔اور اگر کہیں اس میں کمی ہے تو اس کی ادائیگی کے لیے کوئی تحریک چلانا یہ بھی ایک معاشرتی ذمّہ داری ہے ۔اس کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا جاتاہے تاکہ ہم خیال لوگوں کا ایک بڑا جتھہ مل کر اس مقصد کے لیے جدوجہد کرے ۔
مگر یہ کیسے لوگ ہیں جن کا دعویٰ عورتوں کے حقوق کے لیے ہے اور ان کا نعرہ کمال بے حیائی پر مبنی ہے جوکہ ہمارا میڈیا مغرب کی خدمت میں گھر گھر پہنچانے کی خدمت انجام دے رہاہے۔تاکہ جس آگ میں آج اپنی اس روش کی وجہ سے مغرب جل رہا ہے وہ ہمیں بھی اسی فحاشی اور بے راہ روی کی آگ میں جھونک دے ۔
سڑکوں کو پر نکل کر اپنے آپ کو تماشا بنانے والی ان خواتین کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ان کی عزت کس نظام میں ہے وہ نظام جو کہ مغرب کا ہے ۔ جس کے اندر رشتوں کی کوئی قدر نہیں ہے ۔ جہاں عورت کا مقام ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے کہ جہاں اس کو استعمال کرکے پھینک دیا جاتاہے۔
یا اسلام کے نظام میں کہ جہاں عورت ماں،بیٹی ،بہن اور بیوی کے روپ میں موجود ہے ۔ اسلام اس کے حق کی ضمانت دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج زیادہ تر اسلام قبول کرنے والی عورتیں ہیں۔پاکستان کے کسی بھی بازار ، تعلیم ادارے میں جاکر دیکھ لیں کہ وہاں زیادہ تر خواتین پردے میں پائی جاتی ہیں ۔اور اس شرح میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔اسلام دین فطرت ہے اور پردے کا حکم دراصل اس کی فطری ضرورت ہے ۔
آیئے اس کو اس طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتےہیں۔ آپ جس دوکاندار سے روز مرّہ کی چیزیں خریدتے ہی اس کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ ایک درجن انڈے دیں ۔ وہ آپ کے لیے انڈے لا کر جب آپ کو دے تو وہ ایک خوبصورت پیالے میں ہوں چھلکے کے بغیر۔
تو آپ اس سے کیا کہیں گے ارے بھائی یہ کیا ؟ آپ نے انڈوں کے ساتھ کیا کیا وہ کہے کہ میں نے آپ کی سہولت کے لیے ان کو چھلکے سے باہر کرکے دیا تاکہ آپ کو سہولت ہو اور آپ ان کو گھر لے جاکر آملیٹ بناکر مزے سے ناشتہ کریں ۔ مگر آپ اس کی یہ مہربانی قبول نہیں کریں گے آپ کہیں گے کہ میں انڈوں کو ہرگز نہیں لے جاؤں گا بلکہ آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے ان کو کسی کوڑے دان میں ڈالیں ۔
اسی طرح کسی پھل فروش کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ مجھے ایک درجن کیلے دیں وہ آپ کے سامنے ان کے چھلکے اتار کر آپ کو ان کو تھلیےمیں ڈال کردنیے لگے تو آپ کیا کہیں گے ،وہی کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہوگیاہے! آپ نے ان کے چھلکے اتار کر ان کو جراثیم کا زدہ بنادیا ۔اب ان کو کچرے کے ڈھیر میں ڈالو میں میں کسی اور دوکان سے انڈے اور کیلے لے لوں گا۔
دونوں صورتوں میں دوکاندار نے انڈوں اور کیلوں کے چھلکے اتارے گویا اس نے آپ سے ازراہ ہمددری ان چیزوں کے پردے اتارے ۔مگر یہ کیسے ہوتاہےکہ جس کو آپ ماں ،بیٹی ،بیوی اور بہوں قرار دیتے ہیں ان کو ایک عزت والا مقام دیتے ہیں ان کے لیے آپ انڈوں اور کیلوں والی مثال بھی سامنے نہ رکھیں۔
اسلام کے علاوہ کس مذہب نے عورتوں کو ان کا حق دیاہے ؟ کسی بھی مذہب میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے عورت کو یہویوں نے ناپاک وجود کی حیثیت سے اپنے یہاں رکھاہے ۔عیسائیت میں عورت کو دنیا کے تمام فتنوں کی جڑ قرادیا ہے اور ان کے پادریوںکی تاریخ بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ اپنی ماں کی شکل بھی دیکھنا حرام سمجھتے تھے ۔
مشہور فلسفی ارسطو نے بھی اپنے فلسفے میں عورت کو دنیا کے تمام فتنوں کا سبب قراردیاہےاور ہندوستان میں تو عورت کو جانور سے بدتر سمجھا گیاہے وہ تو بس مرد کی غلام ہے مرد کے مرجانے کے بعد اس کو اس کے شوہر کی چتا کے ساتھ جلا دیا جاتاہے یا معاشرہ اس کے ساتھ وہ سلوک کرتاہے کہ وہ بہتر یہی سمجھتی ہے کہ شوہر کی چتاکے ساتھ جل کر مر جانا ہی بہتر ہے۔
آج مغر ب اور اس شیطان کے چیلے دنیا میں عورتوں کے حقوق کے نعرے لگاکر سادہ لوح ہماری ماؤں، بیٹوں اور بہنوں کو سڑکوں پر لاکر دنیاکو دھوکا دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔عورتوں کے لیے تو آج بھی نہ یہودیوں میں وراثت کا کوئی قانون ہےنہ عیسائیوں میں قانون ہے اور نہ جمہوریت کے ٹھیکیدارہندوستان میں اس کا کوئی قانون، وہ اپنی بیٹیوں کو دان دھیج دے کر رخصت کردیتے ہیں اس طر ح سے وہ اپنی بیٹیوں سے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔
دنیا میں صرف اسلام ہی وہ واحد نظام زندگی ہے کہ جس میں ہی عورت کا حق مرد کے مساوی ہے ۔ مرد کو جو ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے وہ دراصل انتظامی حوالے سے ہے اس میں عورت کے حق میں کوئی کمی نہیں ہے ۔اسلام نےعورت کے جسمانی ساخت کی وجہ سے اس کو معاشی سرگرمیوں سے بری الذمہ رکھاہے ۔ اس کی ذمّہ داری گھر کی ہے اور معاش کی ذمہّ داری مرد پر رکھی ہے ۔ عورت کی ذمہ داری بچوں کی پرورش کرناہے ۔عورت کا اس کے باپ کی جائداد میں حصّہ مقرر کیا اور اس کا اد ا کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح مردوں کے حقوق بیان کیئے ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق بیان کئے ہیں۔قرآن میں دوٹوک الفاظ میں یہ حکم موجود ہےکہ جولوگ بھولی بھولی بھالی مومن خواتین پر بہتان لگائیں وہ چار گواہ لائیں اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو بہتان لگانے والے کو اسّی کوڑے لگائے جائیں ۔قرآن نے تو عورتوں اور مردوں کو الگ خطاب کرکے دوسرے کا مذاق اڑانے ،برے القاب کے ساتھ پکارنے،تجسّس اور بہتان سے بھی منع کیاہے ،حضور ﷺ نے اس پورے حکم کی تشریح اپنی پوری زندگی میں کرکے دکھائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا “لوگو! عورتوں معاملے میں اللہ سے ڈرو”یہ بات آپﷺ نے تین بار اور بعض روایات میں آیا کہ دس بار فرمائی اور دوسری جگہ فرمایاکہ” تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم میں سب سے بہتر ہوں”۔ آپ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی تاکیدی طور پر فرمایا کہ نماز نہ چھوڑ نا اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا۔ تاریخ میں یہ واقعات صرف اسلام کے اندر ہی موجود ہی جو کہ اس بات کی دلیل ہیں ۔ان میں سے چند قاریئن کی نذر ہیں کہ بات ان ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی سمجھ میں آجائے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک بار حضور میرے پاس تشریف فرما تھے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کئے جو کہ مجھے سوتن سوتن ہونے کی وجہ سے ناگوارگزرے میں نے ان سے کہا آپ بھی اس بوڑھی کے بارے میں یہ بات کہ رہے ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : خدیجہ بس خدیجہ تھی اس جیسی کوئی نہیں۔
حضور جب حضرت خدیجہ کو یاد کرتے تو آپ کی آنکھیں نمناک ہوتی کیونکہ جب سارامعاشرہ آپ کو جھٹلارہاتو آپ ﷺ کی پشت پر ایک خدیجہ ہی تو تھیں جو کہ آپ ﷺ کو ڈھارس بندھاتیں۔ حضرت خدیجہ نے اپنی تمام دولت حضور ﷺ کی خدمت اور اسلام کی خاطر نچھاور کردی۔
اسی طرح سے ایک غزوے سے واپسی پر جعفر طیار اور ان کے ایک اور ساتھی کے درمیان تنازعہ ہوا ایک بچّی جس کے والد جنگ میں شہید ہوئے تھے ۔ دونوں فریق یہ کہ رہے تھے کہ اس بچّی کی کفالت میں نے کرنی ہے ۔حضور نے دونوں فرمایا کہ آپ بچّی کے معاملے میں دست بردار ہوجائیں مگر صحابی کہ رہے تھےکہ آپ پر میرے ماں باپ قربان یارسول اللہ مگرمیں اپنی جنت کیسے چھوڑوں یہ بچّی میری رشتہ دار ہے بڑی دیر بعد حضرت جعفر طیار کے حق میں دوسرے صحابہ دست بردار ہوئے اور حضرت جعفر طیار نے بچّی کو اُٹھا یا اور کہا کہ میں اپنی جنت لے کر جارہاہوں۔
اسی طرح آپ سے کسی صحابی نے پوچھا : اے اللہ کے نبی انسانوں میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا حق کس کو ہے؟ اللہ کے حبیب نے فرمایا کہ تیری ماں کا یہی بات دوبار ہ پوچھا کہ میرے حسن سلوک کا سب زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایاکہ تیری ماں کا ۔تیسری بار پھر صحابی نے پوچھا کہ اس کے بعد میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ۔ آپ نے فرمایا تیری ماں کا ۔چوتھی بار پھر یہی سوال صحابی نے کیا آپ نےفرمایا تیرے باپ کا ۔
اسلام نے تو ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ۔بیٹیوں کی بہترین پروش اور تربیت پر جنت کی بشارت دی ۔ مگر میری مائیں ، بیٹیاں اور بہنیں ،پاکیزہ دین اور اس کی معاشرت کو چھوڑ کر مغرب کا طریقہ اختیار کررہی ہیں ۔ وہاں تو سورج بھی بے نور ہوجاتاہے ۔ وہ تو خود دلدل میں پھنس چکے ہیں ۔ وہاں تو بچّے اپنے باپوں ، عورت اپنے مخلص خاوند کی تلاش میں ہیں ، مگر ان کی تلاش خودکشی!یا پھر اسلام ہے آج یورپ میں سب سے زیادہ عورت اسلام کی آغوش عافیت میں آرہی ہے ۔
انسان کبھی بوڑھا نہ ہو، انسان کے اعضاء کبھی مضمحل نہ ہوں اس کی آنکھ کمزور نہ ہو ، وہ کبھی بیمار نہ ہو، اس کو کبھی موت نہ آئے وہ ہمشہ جوان اور طاقتور رہے ۔ اگر میرا جسم میری مرضی ہوتو ایسا ہونا چاہیئے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ انسان پچپن ، جوانی ،بڑھاپے اور پھر موت کا شکار ہوجاتاہے۔
یہ جسم یہ رشتے تو اللہ کی امانتیں ہیں یہ تو انسان کے تابع نہیں ہیں بلکہ یہ تو اپنے خالق کے تابع ہے۔گزشتہ دنوں سینیٹ میں بھی عورت مارچ کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے محترمہ شریں رحمان صاحبہ نے بڑے زور دار انداز میں عورت مارچ تو ضرورہو گا کہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت کمزروی پائی جاتی ہے ۔
کاروکاری ، قرآن سے شادی اور عورت پر ہونے والے مظالم کا تناسب بہت زیادہ ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ظلم مغرب میں جاری ہےیہ ہوا کھڑا کرنا کہ پاکستان میں ہی دنیا میں سب سے زیادہ عورت مظلوم ہے اگر ایسا ہوتا تو پاکستانی معاشرے سے خاندانی نظام کب کا ختم ہوچکا ہوتا ۔ ہاں ختم کرنے کی کوشش بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے جو مغرب کا آلہ کار میڈیا اور غلامان مغرب انجام دے رہے ہیں۔
سندھ کے اندر اور پورے پاکستان میں ان محترمہ کی جماعت وزارت ، صدارت اور بالخصوص سندھ کے اندر تو تین دہائیوں سے برسر اقتدار ہے اور یہ سارے جرائم کا زیادہ تر حصّہ سندھ کی آبادیوں میں رونما ہوتاہے ۔ آخر ان جرائم کے خاتمے کے لیے انھوں نے کیوں کوئی اقدامات نہیں کئے اور اب اس سلسلے میں کیا کام ہورہاہے یا لے دے کہ بس اسلام اور مسلمان ہی نشانے پر ہیں ۔
پتھر وں کا دور بھی ایسا نہ تھا
آدمی وحشی تھا بے چہرہ نہ تھا