کسی نے انتہائی سادگی میں انسان کی سب سے بڑی مشکل کم ترین الفاظ میں بیان کردی ہے کہ آج ہرکوئی خوش رہنے کیلیے پریشان ہے۔آج ہرکوئی چاہتاہے کہ دوسرے اسے خوش رکھیں پریہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی کی خوشی کواہمیت نہ دیں اوردوسرے ہماری خوشی کاخیال رکھیں؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ انصاف نہ کریں اورہمارے ساتھ انصاف ہو،شکوہ ضرورکریں پراُس سے قبل اپنااحتساب لازم ہے تاکہ معاشرے میں پھیلی ناانصافی وظلم وجبرکوختم کرنے کاکوئی راستہ نکلے۔
عورت ہویامرددونوں ہی انسان ہیں اوردونوں کواپنی اپنی حدودمیں رہتے ہوئے زندگی کوخوشگواربنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔یہ زندگی بہت چھوٹی اورمختصرہے اسے ایسی خوشی کی تلاش میں پریشان نہ کیاجائے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ خواتین کومردوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کاسامناہے پر اس کا یہ مطلب تونہیں ہوسکتاکہ خواتین مردوں سے الگ دنیابساسکیں۔
خواتین اورمردحضرات ایک دوسرے کی ضرورت ہیں لہٰذاہمیں مل کرپریشانیوں کے حل تلاش کرناہیں ۔ہم نے دیکھاکہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ کے حوالے سے بحث ومباحثے توپہلے بھی جاری تھے پر ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ماروی سرمد اور ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے نے الیکٹرونکس اورسوشل میڈیا پرجو طوفان برپاکردیا ہے ماضی میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔
عورت مارچ کے حامیوں کے مطابق اس مارچ کامقصد خواتین پر ہونے والے جبر، ظلم اورزیادتیوں کے خلاف آوازاُٹھاناہے۔ظلم وزیادتی کیخلاف آواز بلند کرنا،اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے، عورت مارچ کے منتظمین کاکہناہے کہ ان کے بنیادی مطالبات یہ ہیںکہ عورت پر تشدد بند ہو، عورت کو معاشی انصاف ملے اور میڈیا عورت کو مظلوم دکھانا بند کرے۔
جہاں تک خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی،معاشی،سماجی انصاف کی فراہمی کی بات ہے توہم نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ شانہ بشانہ ہیں پرمیراجسم میری مرضی والی بات سمجھ سے بالاترہے۔خواتین جنہیں صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا ہے،مشرقی معاشرے خاص طورپرمسلم معاشرے میں خواتین کو گھر کی زینت سمجھا جاتا ہے جبکہ خواتین گھرہی نہیں اس کائنات کی زینت ورونق ہیں۔مشرقی معاشرہ ایسی خواتین کوعزت دارسمجھتاہے جو چاردیواری کے اندر رہ کراپنے والدین،بہن بھائیوں اورپھرشوہر،شوہرکے والدین اوراپنے بچوں کی دیکھ بھال احسن طریقے سے کریں جبکہ دورحاضرمیں بہت ساری خواتین گھرسے باہرکی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہی ہیں۔
حقیقت میں گھر،خاندان اورریاست کے امورچلانے میں مردوعورت دونوں ہی کرداراداکرتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ خواتین کونہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیامیں جنسی تشدد،معاشی،سماجی ناانصافی اورظلم زیادتی کاسامناہے،یہ بھی حقیقت ہے کے مسلم معاشرے کے باشعورخاندانوں میں خواتین انتہائی بااثرہوتیں ہیں۔ایک طبقے کاخیال ہے کہ سماجی و معاشی معاملات اور معاشرتی زندگی کے حوالے سے عورت کووہ حقوق حاصل نہیں جومردکوحاصل ہیں یہ خیال بڑی حدتک درست بھی ہے۔
مہنگائی،غربت، افلاس،تنگدستی کے ہاتھوں پریشان خواتین محرومیوں سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہیں توخاندان ہی نہیں بلکہ محلے والے اوررشتہ داربھی گھر سے باہر نوکری کرنے کی مخالفت کرنے لگتے ہیں جبکہ یہی لوگ بھوکوں کوکھانایابیماروں کوادویات کی فراہمی کیلئے کوئی مددنہیں کرتے ،تمام ترمشکلات سے گزرنے کے بعدمعلوم ہوتاہے کہ خواتین کیلئے ملازمت کے مواقع بہت کم ہیںبمشکل ملازمت مل بھی جائے تو جنسی طور پر ہراساں کیا جانابہت عام سی بات ہے۔
مردوں کی حاکمیت کے دعویدارمعاشرے میںخواتین کوہر وقت جنسی تفریق کا سامنا رہتاہے جبکہ وہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے،کم تعلیم یافتہ،احساس وشعورسے عاری مردگھرمیں ذمہ داریاں سرانجام دینے والی خواتین کوفقط اس لئے کمترسمجھتے ہیں کہ وہ کون سا کماکے لاتی ہیں۔سب سے زیادہ تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ گھریلوں خواتین چاہئے ساری زندگی خدمت میں گزاردیں اُن کااپناگھرکوئی نہیں ہوتا۔والدین شادی کرکے گھرسے رخصت کردیتے ہیں جبکہ سسرال بھی عورت کیلئے مہمان خانہ ہی ثابت ہوتاہے جب چاہئے خاوندگھرسے نکال دیتاہے۔
خواتین کااپنے حقوق کیلئے آوازاُٹھاناہی کافی نہیں بلکہ باشعورمردوں کوبھی خواتین کے حقوق کیلئے نہ صرف آوازاُٹھانی چاہئے بلکہ موثرکرداربھی اداکرناچاہئے۔خواتین کے عالمی دن کے موقع پرہمیں اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے پرزوردیناچاہیے کی عورت بھی مردکی طرح انسان ہے۔جب تک مرداپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائیں گے عورت کی عزت نہیں کریں گے۔عورت کوپاوں کی جوتی یاجسمانی لذت کاذریعہ سمجھیں گے تب تک معاشرے سے بے حیائی ختم نہیں ہوسکتی۔مرداپنے گھرکی عورت کوباحیا۔باپردہ اورباکرداردیکھناچاہتاہے جبکہ باقی تمام عورتوں کوبے لباس یاکم لباس دیکھ کرلذت محسوس کرتاہے۔فحش لہجے،فحش گفتگوپسندکرتاہے۔عورت کتنے ہی بڑے رتبے یاعہدے پرفائزکیوں نہ ہوجائے مرداس کے کرداریاہنرکونہیں بلکہ اس کے جسم کودیکھتااورجسم کوہی سوچتاہے۔
عورت کواسلام کے احکامات کے مطابق باحیااورباپردہ ہونے کی ہدایت کرنے والے مردننگے جسموں اوربے لباس الفاظ کوپسندکرناچھوڑدیں تومعاشرے میں کوئی فحاشہ پیداہی نہیں ہوسکتی۔جہاں تک برابری کی بات ہے توبرابری ممکن نہیں،نہ عورت مردکے برابرہوسکتی ہے اورنہ ہی مردعورت کی برابری کرسکتاہے،مردوعورت ہرلحاظ سے مختلف ہیں البتہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں توخواتین کی محرومیاں جڑسے ختم ہوسکتی ہیں۔ہمارے لئے اس سے بڑاالمیہ اورکیاہوگاکہ ہماری مائیں،بہنیں،بیویاں اوربیٹیاں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پرہیں اورایک مسلم دشمن طبقہ ہمیں آپس میں لڑانے میں دن بدن کامیاب ہوتاچلاجارہاہے۔
مسلم دشمن ذہنیت کامشن ہے کہ لڑادوحقوق کے نام پرمسلم مردوعورت کو،کروا دو تصادم میاں بیوی،ماں بیٹے،بہن بھائی کے درمیان۔آج ہم میراجسم میری مرضی کانعرہ لگانے والی خواتین سے سوال کرتے ہیں کہ عورت اپنے بیٹوں کی ایسی پرورش کیوں نہیں کرتی کہ مرد عورت پرظلم وجبراورناانصافی کی بجائے احترام وعزت کے ساتھ پیش آئیں؟ایک عورت دوسری عورت پرظلم وزیادتی کیلئے مردکو کیوں اُکساتی ہے؟جو خواتین اپنے حقوق کے حصول کیلئے عورت مارچ کے نام پرمیراجسم میری مرضی کانعرہ لگارہی ہیں اُن کی خدمت میں بصداحترام گزارش ہے کہ نعرہ لگانے کی بجائے اپنے جسم اورروح کواپنے بچوں کی بہترپرورش کیلئے وقف کریں تاکہ آئندہ نسلوں کی بہترتربیت ہوسکے تاکہ مردوعورت کے درمیان مصنوعی تفریق اورناانصافی کاخاتمہ ہوسکے ۔
میراجسم میری مرضی والے بتائیں کہ میرے جسم پرمیری مرضی چل سکتی ہے توپھردنیاکوروناوائرس سے کیوں پریشان ہے؟مرضی چلائیں اوروائرس بھگائیں پھر۔جولوگ خواتین کے حقوق کیلئے عورت مارچ کرناچاہتے ہیں ضرورکریں،معاشی،سماجی،انصاف اورظلم جبرکے خلاف جدوجہدکرناچاہتے ہیں ضرورکریں پرمہربانی کرکے میراجسم میری مرضی کانعرہ اورمنصوبہ تبدیل کردیں توہم بھی اُن کی آوازمیں آوازاورقدم سے قدم ملاسکتے ہیں۔