آجکل ہر طرف ایک ہی شور برپا ہے جہاں دیکھو ایک ہی طرح کی پوسٹیں نظر آتی ہیں عورت آزادی چاہتی ہے ۔میرا ان عورتوں سے ایک ہی سوال ہے کہ آپ کو کس قسم کی آزادی چاہیے۔۔؟ جتنے حقوق اسلام نے عورت کو دئیے ہیں اس سے پہلے کسی مذہب نے نہیں دئیے میری نظر میں جو عورتیں آزادی کی خواہشمند ہیں وہ عورت کہلانے کے بھی لائق نہیں۔
’’عالمی یوم خواتین‘‘کو محض’’ عورت مارچ ‘‘دن منانے سے پہلے ہم ایک نظر اسلام سے پہلے ادوار و مذاہب پر ڈال لیں تویقینا ہمیں محسوس ہوگا کہ جتنے حقو ق اسلا م نے عورت کو دئیے ان سے زیادہ کسی بات کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ عورت کو رب العزت نے وہ مقام عطا کیا ہے جو شاید مرد کو بھی حاصل نہیں کیونکہ عورت کہنے کو تو ایک تخلیق کار ہے کیونکہ وہ اپنے بطن سے ایک انسان کو پیدا کرتی ہے لیکن یہی عورت جب کسی سے عشق کرتی ہے تو وہ ایک تخلیق بن جاتی ہے اور مرد اس کا تخلیق کار جسے وہ جس سانچے میں بھی ڈھالے ڈھل جاتی ہے۔
عورت میں رب نے سہن شکتی زیادہ رکھی ہے اسی لیے وہ اپنے بطن سے ایک انسان کو جنم دیتی ہے اور یہ سہن شکتی عورت کی انا کو دوام بخشتی ہے، قوت دیتی ہے یہاں تک کہ مرد کے مقابلے پر لا کھڑا کر دیتی ہے۔ عورت کائنات کا ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت نے عورت کو دنیا کی پسندیدہ ترین مخلوق قرار دیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ’’عورت الوھی نغمہ ہے جس کی دھن پر کائنات رقصاں ہے‘‘۔
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ملے زندگی کا سوز دروں
خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہزِ دروںلیت میں ظہورِ اسلام سے قبل جزیرۃ العرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے۔ اسے پستی کے ایک ایسے غار میں دھکیل دیا تھا کہ اس کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکومعاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق تک نہ تھا عورت کی تاریخ مظلومی اور محکومی کی تاریخ تھی اس کے ارتقا ء کی کوئی توقع نہ تھی اسے کم تر سمجھا جاتا تھا معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی۔
قدیم تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے علاوہ سارے عالم میں عورت کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی دیگر مذاہب اور اقوام نے عورت کو کبھی پنچ مخلوق قرار دیا اور کبھی اسے فساد کی جڑ تصور کرتے ہوئے قابل نفرت سمجھا۔ خواہ وہ یونان ہو یا روم،عرب ہو یا عجم،یورپ ہو،ایران ہو یا ایشیاء ہر جگہ عورت مظلوم ہی رہی ہے یونانیوں کا کہنا تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے،لیکن عورت کے شرکا مداوا محال ہے۔
سقراط کا کہنا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ وفساد برپا کرنے والی نہیں۔ وہ ایسا خوشنما درخت ہے جو دیکھنے میں خوبصورت مگر چکھنے میں تلخ وکڑوا ہے۔ یوحنا کا قول ہے کہ ’’عورت شر کی بیٹی ہے اور امن سلامتی کی دشمن ہے‘‘ جان ڈسپنس کہتا ہے کہ ’’عورت کذب کی بیٹی، دوزخ کی رکھوالی اور امن کی دشمن ہے۔اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اسے حقیقی آزادی ،خود مختاری سے جینے کا حق اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی اور معاشرے میں بلند مقام عطا کیا۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے،ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ ارشاد ربانی ہے:’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے بھی اچھی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت نظر انداز کر دی جائے۔
اس معاشرہ کی گری ہو ئی مخلوق کوتقدس اور احترام کے بلند مقام پر پہنچانے کے لیے،معاشرے میں اس کو حقیقی عزت اور آزادی دینے کے لیے اسلام نے اصول مقرر فرمائے۔ اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قوانین کی اپنے عمل سے وضاحت کی۔ لیکن آج مغربی تہذیب و تمدن کا راگ الاپنے والوں نے اس سے اس کی حقیقی آزادی بلکہ آزادی کی روح سلب کر لی ہے۔ اسلام ہی نے سب میں عظمت ومحبت کی شان پیدا کی۔ یعنی ان کو ماں، بہن، بیوی، بیٹی کا معزز مقام دے کر نہ صرف اس کا تقدس بحال کیا بلکہ معاشرے کی سب سے معزز ترین مخلوق قرار دیا۔
اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی۔
عورت ایک عظیم ہستی ہے جو ہر رشتہ خلوص دل سے نبھاتی ہے وہ ایک ایسا پھول ہے جو ہر سو خوشبو بکھیرتا ہے عورت اپنا اندر بدل دیتی ہے۔ باہر بدل دیتی ہے۔ دل بدل دیتی ہے۔وجود بدل دیتی ہے۔ وہ خود سے جڑے ہوئے ہر رشتے کا خیال کرتی ہے اسے ایمانداری سے نبھاتی ہے صدیوں پہلے کی عورت اگر بے بس تھی تو آج صدیوں بعد بھی عورت محکوم اور مرد حاکم ہے۔ عورت سچے جذبوں کی اسیر ہے اس کا خمیر رب العزت نے ایسی مٹی سے گوندھا ہے جس میں صرف وفا ملتی ہے مرد اگر عورت کو پیار سے سینچے تو وہ ایک مسئلہ نہیں، محبت بن جاتی ہے۔
کیونکہ عورت کو مان،بھروسہ،عزت،یقین،پیار، فخر،مرتبہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہیے ہوتا ہے۔عورت بنی نوع کا لازمی حصہ ہے۔ نسل انسانی کی صالح بنیادوں پرنشو ونما کا انحصار اسی کے طرز عمل پر ہے۔
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘ لیکن اس حقیقت کا ادراک صرف ان مردوں کو ہی ہے کہ جو عورت کے مقام کو پہچانتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ’’عورت مسئلہ نہیں ،بلکہ عورت محبت ہے‘‘۔عورت مرد کی محبت کے سوا کچھ نہیں چاہتی،یہ بھی عورت کی حیا و وداری کی ایک مثال ہے کہ وہ ایک ہی دہلیز پر ساری عمر گزار دیتی ہے پر جب مرد اس کی وفا کی قدر نہیں کرتا توعورت مایوس ہوجاتی ہے اور اس مایوسی میں محبت بھی بھول جاتی ہے اورخود کو انا کی سولی پر چڑھا دیتی ہے۔
یہاں تک کہ وہ خالی کشکول لیے مرد سے بار بار محبت بھیک میں بھی مانگنے کو تیار ہوجاتی ہے لیکن اپنے ٹھکرائے جانے پر، اپنی بے قدری پروہ اپنی ہی محبت قربان کر دیتی ہے۔اور اپنے ہی ہاتھوں سے کشکول توڑ دیتی ہے،کیونکہ عورت میں ٹھہرا ہوا تلاطم بھی ہے،موجوں کی روانی بھی ہے،دریا کی طغیانی بھی ہے،عورت میں حیا بھی ہے وفا بھی ہے،کبھی وہ زانی اور کبھی مریم بھی ہے۔
عورت،محبت،جسم،جذبہ،جال،آزادی،
عورت اپنے حقوق مانگے لیکن حقوق اور آزادی کے نام پر اپنی تذلیل کا سامان تو نہ کرے ۔آج ’’عورت مارچ‘‘ کے ذریعے مغرب زدہ سوچ کی حامل خواتین ’’’میرا جسم ،میری مرضی‘‘ کے نعرے کے ساتھ جو پیغام دنیا کو دینا چاہتی ہیں۔وہ کسی طور بھی قابل تعریف نہیں ۔ان خواتین کو چاہئے کہ وہ پہلے دین اسلام سے آگاہی حاصل کریں ۔اس کے بعد ان کا جو من چاہے وہ کریں ۔لیکن انہیں چاہئے کہ وہ معاشرے کی بربادی کی تاریخ رقم کرنے سے گریز کریں ۔کیونکہ اس میں سراسر خسارہ ہی خسارہ اور عورت کی تضحیک و بدنامی ہے ۔
بہت اچھی تحریر سے سماج میں عورتوں کو اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ھے اور سمجھایا گیا ھے ۔۔۔ شکریہ