اسلام ایک مکمل دستور ہے، انسانی زندگی میں پیدائش سے لے کر آخری آرام گاہ تک جتنے بھی موڑ آسکتے ہیں اسلام نے ہر شعبہ میں راہنمائی کی ہے اور اسلام نے اپنے پیروکاروں کی راہبری کرتے ہوئے بے حد عادلانہ اور منصفانہ نظام پیش کیا ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ موت کے بعد آنے والے مسائل کا حل بھی بتایا ہے، جن میں سے ایک اہم مسئلہ اس کی املاک وجائیداد کی تقسیم کا ہے۔ شریعت کے دیگر احکام کے مقابلے میں میراث کو یہ خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ باری تعالیٰ نے بذات ِخود اس کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔
نماز روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں کیے گئے جتنا ذکر میراث کا کیا گیا ہے۔ اور سب سے اہم اور قابل ِغور بات یہ کہ میراث کو فرضیت من اللہ اور حدود اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اسی کی بناء پر شریعت میں قانونی میراث کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج نام نہاد اور خود ساختہ مفکرین و دانشور جو مغرب کی طرف سے آنے والی ہر شے کو نعمت ِغیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور اس کو موضوع بحث کو اور اس پر ایمان بالغیب لانے کو روشن خیالی سمجھتے ہیں اور وہ لوگ اپنی محدود اور کم عقل سے اپنی جھوٹی اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اسلام کے بعض احکام کو قابلِ ترمیم و تنسیخ قرار دیتے ہیں۔ انکا ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے صنفِ نازک کے ساتھ نا انصافی کی ہے، جن کی بناء پر عورتوں کی تذلیل اور انکی حق تلفی ہوتی ہے۔ عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہے۔ یہ اعتراض یا پروپیگنڈہ ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، جن کے اپنے مذہب میں عورت کو وراثت میں کوئی حق دیا جاتا ہے نہ کوئی حصہ۔ سب سے اہم اور بات یہ ہے کہ ان کے ہاں تو عورت کو مملوکہ چیزوں کی طرح منتقل کیا جاتا ہے۔ اگر کسی عورت کا مرد انتقال کر جاتا ہے تو اس کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ شادی کر لی جاتی ہے اور اس کا مہر مار لیا جاتا ہے اور دوسری بات یا تو کسی اور سے شادی کر دی جاتی ہے اور اسکا مہر خود رکھ لیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی بات بنتی نظر نہ آئے تو پھر اس کو عمر بھر بیوہ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
مگر اسلام نے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے۔ ( ترجمہ : ماں باپ اور رشتہ داروں کے ترکے میں سے مردوں کا حصہ ہے اور ان کے ترکے میں عورتوں کا بھی حصہ ہے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ حصہ (خدا کی طرف سے ہے) مقررہ ہیں۔النساء ۔
اس کے روبرو اللہ باری تعالیٰ نے عورتوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے بھی حکم فرمایا ہے۔ اسلام حقوق و نسواں کا اولین علمبردار ہے اور اسلام نے ہی عورت کو پستی سے نکال کر بلندیوں پر چڑھایا اور عورتوں کے حقوق کی نمائندگی کی ہے۔ وراثت سے حصہ پانے والے اصحابِ فرائض میں مرد کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے۔ جہاں چار مرد۔ باپ، دادا، ماں شریک بھائی، اور شوہر کو حصہ دیا گیا ہے تو وہیں آٹھ عورتوں۔ بیوی، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، ماں شریک بہن، ماں، دادی یا نانی کو حصہ دیا گیا ہے۔ اسلام میں عورتوں کو مثالی حقوق دیے گئے ہیں اور یہ نہ تو کسی مذہب میں دیے گئے ہیں اور نہ کسی تہذیب میں کوئی ذکر ہے۔
اسلام سے قبل مالی نظام دولت کو جمع کرنے پر تھا جبکہ یہودیوں اور ہندوؤں میں بھی عورت کا کوئی حق نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت میں تمام تر وراثت کا حق دار لڑنے اور دفاع کرنے والے کو سمجھا جاتا تھا بچوں اور عورتوں کو انکا حق نہیں دیا جاتا تھا بلکہ انکا حق سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ اسلامی نظریہ کے مطابق نظامِ معیشت کی بنیاد ایسے رکھی گئی کے دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو۔ مردوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی میراث میں حق دیا گیا۔ تقسیمِ میراث کا متوازن اور منصفانہ نظام مقرر کیا گیا ،جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت بھی اپنا حق رکھتی ہے اور اس کو اس کا حق شعریت کے مطابق ملنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا کردار بہت ہی اہم اور امدا ہے۔ اور یہ بات اپنے ذہن میں باور کرانی چاہیے کہ ہر عورت ایک ماں ہوتی ہے اور اس کے وہ لمحات جن میں وہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے ۔
کوئی بھی انسان اپنی جان پر کھیل کر وہ کوئی مول نہیں دے سکتا، کسی بھی صورت میں ، مگر ہاں عورت معاشرے میں زندہ رہ سکتی ہے، جب اسکو اسکا حق ملے گا، اسکو پہچان ملے گی، عزت ملے گی اور تحفظ ملے گا۔ عورت اس ذات کو کہا گیا ہے جو ماں ہوتی ہے اور ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ معاشرے میں عورت کی عزت کا تحفظ اور عورت کی حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہے۔ اور یہ ہر انسان کا اخلاقی فرض بھی۔