ماشاءاللہ بہت اچھی بات ہے عالمی دن منانا، لیکن میں کہتی ہوں ایک ہی دن کیوں عالمی دن منایا جائے؟ کیا خواتین اس دن کی روز حقدار نہیں ہیں؟ کیا ہماری مائیں, بہنیں, بیویاں یہ دن روز منانا نہیں چاہتیں؟ کیا اُن ں کے دلوں میں یہ خواہش نہیں ہوتی کہ ہماری اولاد ہمیں ہر دن اتنا پیار دے جتنا وہ ایک دن کو مخصوص کر کے کبھی کیک کاٹ کے تو کبھی ڈنر کھلا کر مناتی ہے۔کبھی مدرز ڈے مخصوص کردیا جاتا ہے، تو کبھی فادرز ڈے، ہم کیوں ان رسومات کو اپنائے ہوئے ہیں؟ کیوں اپنے نبیؐ کی سُنت پر نہیں چلتے؟ کیوں عمل نہیں کرتے؟
کبھی سوچا ہے ہمارے نبی پاکؐ نے ہر دن کو خواتین کا دن رکھا اپنی بیٹی فاطمہ زہرہ کو عزت پیار، محبت، ہر دن دیا اتنا احترام کرتے تھے کہ ان کے احترام میں اُٹھ کے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، جب تک ایک دن بیٹی کے گھر نہ جائیں اُن کا چہرہ نہ دیکھیں انھیں سکون نہیں ملتا تھا۔
اپنی بیوی خدیجتہ الکبریٰ کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ اُن کا گھریلو امور میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے اُن کے ساتھ پیار محبت سے پیش آیا کرتے تھے۔ ہمارے نبی پاکؐ ہمارے لئیے نمونہ عمل ہونے چائیں نہ کہ ہم دنیا کی فرسودہ رسومات کی پیروی کریں؟ یہاں میں ان خواتین کے لیے بھی کہنا چاہوں گی کہ عالمی دن منانے کے لیے گھروں سے باہر نکل کے اپنے حقوق مانگنے کے بجائے یہ سوچیں کے ہمارے مذہب میں عورت کو جتنے حقوق دیے گئے ہیں، شاید ہی کسی مذہب میں عورت کو اتنی عزت اتنے حقوق دیے ہوں گے۔
میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے والی خواتین دین اسلام پہ اک دھبا ہیں، ہمارے نبی ﷺ کی بیٹی تمام خواتین کے لیے نمونہ ہیں کیا ان کے جیسی ایک بھی عادت اپنائی آپ نے؟ جو بیٹی اپنے بابا کے اندھے صحابہ کے سامنے بھی پردہ کریں یہ کہہ کر کہ وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے لیکن میں تو نا محرم کو دیکھ رہی ہوں۔ جو بی بی کبھی سر سے ڈوپٹہ نا اترنے دے کبھی۔ جس کا چہرہ تو کیا ان کے ہاتھ کے ناخن تک نہیں دیکھے ہوں کسی نا محر نے۔ وہ بی بی ہیں ہمارے لیے نمونہ عمل۔
عورت کس آزادی کی بات کرتی ہے؟ کون سے حقوق مانگتی ہے؟ آزاد عورت کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے عورت ایک چھپی ہوئی چیز کے معنی ہیں۔ لیکن آج عورت چھپی ہوئی نہیں کھلی ہوئی ایک ایسی کینڈی بنی ہوئی ہے، جس پر مکھیاں منڈلاتی ہیں اور اس کی ذمہ دار عورت خود ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ جو عورت اپنی عزت خود نہیں کرتی اس عورت کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ اپنے کردار کو ایسا بنائیں کہ ہر دن عالمی دن محسوس ہو شرم و حیا عورت کا زیور ہے اور اس زیور میں سجی عورت مقدس دکھائی دیتی ہے نا کہ حقوق مانگتی ہوئی گلی کوچو میں نعرے بازی کرتی یہ کہنے والی عورت ” میرا جسم میری مرضی۔
اگر سُنتِ نبوی پہ عمل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی عورت کا حق مارسکے کوئی شوہر یا کوئی اولاد ۔ عورت اپنا حق اتنا ہی سمجھے جتنا ہمارے دینِ اسلام میں عورت کو دیا گیا ہے۔
اسی طرح تمام مردوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری مائیں ہمارے لئیے زندگی بھر قربانیاں دیتی ہیں جب تک زندہ رہیں اور بدلے میں ہم انھیں عالمی دن, مدرز ڈے کا تحفہ دے کر اپنا فرض پورا کردیتے ہیں۔
ارے ہم تو اپنی ماں کی محبت کی قربانیوں کا قرض ساری زندگی بھی خدمت کریں تو نہیں چُکا سکتے۔ مائیں تو مرنے کے بعد بھی اپنی اولاد کے لئیے دعاگو رہتی ہیں۔ ہم بدنصیب اولاد ہیں کہ انھیں زندگی میں بھی بھلا بیٹھتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی۔ عالمی دن منائیں ضرور منائیں مگر ایک دن مخصوص کرنا ایک عورت کے لئیے خوشی نہیں غم کا سبب بنتا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ کیا میں سال میں ایک دن ہی یاد آتی ہوں؟ کیا سال میں ایک دن ہی مدر ڈے ہوتا ہے؟ میں نے تو اپنے بچوں کو بچپن سے جوانی تک جوانی سے بڑھاپے تک روز محبت دی اس کی دُکھ سکھ کی ساتھی بن کے ان کے ساتھ کھڑی رہی ۔
لیکن آج اولاد مجھے سال میں ایک دن کیک لے کر آتی ہے کیک کھلا کے ایک گھنٹہ ماں کو وقت دیا مجبوراً اور پورے سال کے لئیے پھر چھوڑ جاتی ہے، تنہا کر جاتی ہے۔ یہ کیسا عالمی دن ہے؟ یہ لمحہء فکریہ ہے”
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت (اسوہء حسنہ) اپنائیں تو کسی کی حق تلفی نہیں ہو سکتی بلکہ گھر خاندان خوشگوار زندگی بسر کرسکیں گے امن و سکون کا گہوارہ ہوں گے جنت کا نمونہ پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔