چین نےنوول کرونا وائرس کوویڈ-انیس کی وبا کی روک تھام کے لئے سخت حالات میں انتہائی مشکل فیصلے کئے اور پھر ان فیصلوں پر ثابت قدمی سے عمل درآمد بھی کیا۔ وقتی طور پر ان اقدامات پر مختلف حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کی بھی کی گئی۔ تاہم آج ایک ماہ بعد ہی جب یہ وبا دنیا کے مختلف حصوں میں سراٹھا رہی ہے توپوری دنیا کی جانب چین کے اقدامات کی تحسین کی جا رہی ہے۔
میں چین میں مقیم ہونے کی وجہ سے اس وائرس سے سب سے متاثر ہونے والے شہر ووہان میں اکثر لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہوں۔ وہاں ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود مقامی حکومت اور طبی عملے کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی، مشکلات کے باوجود ووہان شہر اور صوبہ ہوبے کے لوگ حکومتی ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہیں،
چین کی جانب سے اختیار کئے جانے والے ان انتہائی جراتمندانہ، بروقت اور فعال اقدامات کی تاریخ میں اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان اقدامات کی تحسین اور توثیق انتیس فروری کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی ایک مشترکہ تحقیقاتی روپورٹ میں کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ چین ، جرمنی ، جاپان ، جنوبی کوریا ، نائیجیریا ، روس ، سنگاپور ، امریکہ ، اور عالمی ادارہ صحت سے تعلق رکھنے والے 25 ماہرین کی جانب سے مرتب کی گئی ہے۔
ڈاکٹر بروس ایلورڈ ، جو کہ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل کے سینئر مشیر ہیں، وہ اس مشترکہ ٹیم کے سربراہ تھے۔ حال ہی میں ، بیجنگ اور جنیوا میں منعقدہ دو پریس کانفرنسوں میں ، انہوں نے کہا کہ میں نے چین میں خود حالات کا جائزہ لیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ “اگر میں اس وبا سےمتاثر ہوتا ہوں تو میرا چین میں بہترین علاج ہو سکتا ہے”۔ اب تک کی ہماری معلومات کے مطابق “چینی طریقہ وہ واحد طریقہ ہے جسے ہم فی الحال جانتے ہیں اور یہ کامیاب ثابت ہوا ہے”۔ باقی دنیا کو چینی پیشہ ورانہ ردعمل کا طریقہ کار سیکھنا چاہئے” …
ڈاکٹر ایلورڈ اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر کیوں پہنچے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہےکہ اس تحقیقاتی ٹیم نےخود دیکھا ہے کہ چین نے اس وبا کی روک تھام کے لئے صف اول میں اہم کردار ادا کیا۔ چین سمیت دنیا کو معلوم تھا کہ اس وائرس کی روک تھام کے لئے کوئی ویکسین یا دوا موجود نہیں ہے۔ لہذا احتیاط کے ساتھ موجود وسائل سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو روکا گیا، چین کی جانب سے لوگوں کی جان بچانے کو اولین ترجیح دی گئی۔ اس وبا کے خلاف چین نے دفاعی حکمت عملی اپنائی ، یہ حکمت عملی چین کے نظام کے فوائد کا اہم مظہر بھی ہے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ لوگوں کی زندگی اور جسمانی صحت کی حفاظت کو ہمیشہ اولین ترجیح حاصل ہونی چاہئے ۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں ووہان میں ، صرف دس روز میں ، 3000 سے زیادہ بستروں کی کل صلاحیت کے حامل دو خصوصی اسپتال تعمیرکئے گئے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول نیٹ ورک کے بارے میں ، جو زندگی کے احترام اور تحفظ پر مبنی ہے ، چین کی مضبوط متحرک ہونے کی صلاحیت ، فیصلہ کن عملدرآمد کی اہلیت اور عظمت کی اجتماعی مرضی نے معائنہ کرنے والی ٹیم پر گہرا اثر چھوڑا۔
چین نے مریضوں کے علاج کے لئے بگ ڈیٹا ، مصنوعی ذہانت ، 5 جی اور دیگر تکنیکی طریقوں کا مکمل استعمال کرنے کی کوششوں سے ماہرین کو متاثر کیا۔ اس کے علاوہ ، انسانی جانوں کو بچانے کے لئے ، طبی سامان اور دیگر شعبوں میں چین کی زبردست سرمایہ کاری کو مشترکہ معائنہ کرنے والی ٹیم نے بھی تسلیم کیا ہے۔
اس وقت ، چین میں مشکل کاوشوں کی وجہ سے صورت حال مستحکم ہے لیکن دوسری طرف یہ وبا اب دنیا کے مختلف ممالک میں سر اٹھا رہی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ چین نے ووہان کے “شہریوں کی بندش کی” ملک بھر میں متاثرہ افراد کی موثر تلاش کی اور ان کو صحت مند افراد سے الگ تھلگ رکھنے کو یقینی بنایا۔ عالمی برادری کو ان اقدامات سے سیکھنا چاہیے۔
ہم جانتے ہیں کہ وائرس اور وبا کی کوئی سرحد نہیں ہے ، لیکن اس سے زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک اس بیماری کی ویکسین تیار نہیں ہوجاتی، اس وقت تک اس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہنے کی ضرورت ہے۔