ہمارے معاشرے میں دن بدن طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پہلے جو شرح 15فیصدپہ تھی وہ اب 25فیصد پہ پہنچ چکی ہے۔آئے روز ہر شہر میں طلاق اور خلع کے کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں عائلی زندگی اور خاندانی نظام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ شادی بھی دو خاندانوں کا بندھن کہلاتی ہے، جس میں دو خاندان آپس میں جڑ جاتے ہیں۔شادی کا تعلق جس طرح دو خاندانوں کو جوڑتا ہے، طلاق اسی طرح دو افراد کو ہی نہیں، دو خاندانوں کو توڑ دیتی ہے، جس میں بعض اوقات بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
ماہرین طلاق میں اضافے کا سبب بہت سی وجوہات کو گردانتے ہیں، جس میں صبر و برداشت کی کمی ایک بڑی وجہ ہے۔آج کل صبر و برداشت ناپید ہو چکا ہے۔نہ شادی شدہ جوڑا صبر سے کام لیتا ہے، نہ ہی سسرال والے اس رشتے کو سنبھلنے کے لیے وقت دیتے ہیں۔کسی کو اعتراض ہوتا ہے بہو ایل ای ڈی، یو پی ایس اور جنریٹر نہیں لے کر آئی، تو کسی کو اعتراض ہوتا ہے کہ اتنے مہنگے بیوٹی پارلر سے میک اپ کروا لیا کہ برات کے دن تو دلہن کو دیکھ کر فرط حیرت سے سب نے انگلیاں منہ میں دبا لیں، لیکن اگلے دن منہ دھونے کے بعد وہی انگلیاں منہ سے چبا لیں کہ ہائے دھوکہ ہو گیا رانی کی بجائے رانا بیاہ لے آئے۔کچھ خواتین بھی اعتراض کرتی ہیں کہ شوہر ماں کو مجھ سے زیادہ وقت دیتا ہے اور بعض اوقات لڑکی کے گھر والوں میں سے کوئی نہ کوئی ایسی بات کر دیتا ہے کہ نئی نویلی دلہن سسرال والوں کے خلاف دل میں بغض پال لیتی ہے۔ہر رشتے کو بننے میں پروان چڑھنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔محبت، عزت، احترام کا تعلق ہی آپس کے مسائل کا بہترین حل ہے۔
آج کل کے دور میں جس چیز نے سب سے زیادہ طلاق کی شرح میں اضافہ کیا ہے، وہ موبائل فون اور سوشل میڈیا ہے۔موبائل فون کے ذریعے جتنا لوگوں میں شعور اجاگر ہوا ہے، اتنا ہی اس کے استعمال نے مسائل کو جنم دیا ہے۔ جہاں کئی محبت کرنے والے دلوں کو ملانے کا سبب بنانا ہے، وہیں اس نے کئی خاندان کے خاندان توڑ ڈالے ہیں۔پہلے زمانے میں بہو گھر آ جائے تو ماں باپ، بہن بھائی بار بار لڑکی کے گھر جانے سے گریز کرتے تھے۔کوئی مسئلہ بیان کرنا چاہے تو مائیں سمجھا دیتیں تھیں کہ صبر کرو اور برداشت کرو اسی طرح گھر بنتے ہیں ، مگر اب شوہر یا ساس نے کوئی بات سنا دی تو پورے جہان میں ہی رولا ڈال دیا جاتا ہے۔فیس بک پہ فیلنگ سیڈ کا اسٹیٹس ڈالا جاتا ہے اور کوئی لاکھ پوچھتا رہے کیا ہوا؟ تو یہی جواب آتا ہے ”تمہیں کیا پتہ سسرال میں رہنے کتنا مشکل ہے؟ پل پل جینا اور پل پل مرنا پڑتا ہے”۔
جو لوگ فیس بک پہ نہیں ہوتے ان کے لیے واٹس ایپ پہ اسٹیٹس ڈال دیا جاتا ہے۔”آج دل ٹوٹا ہوا ہے امی ابو بہت یاد آ رہے ہیں” اور آگے رونے والی ایموجی، ان ایموجیز سے ہی اپنے دل کی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے سہارا لیا جاتا ہے۔ اب اس اسٹیٹس کو دیکھ کر ساس سسر، نند شوہر سب کو ہی خوب برا بھلا سننے کو ملتا ہے۔ ایک اور بیماری ہر جگہ سیلفی لینے یا پھر کھانے کی تصویر لینے کی ہے، ابھی کوئی کھانا معدے سے نیچے جاتا نہیں ہے لیکن اس پہ دس ہزار لائکس آ چکےہوتے ہیں۔شوہر حضرات جس کھانے کو منہ نہیں لگا رہے ہوتے بیگم اسی کھانے کے ساتھ پچیس سیلفیاں پوسٹ کر کے تعریف کے ٹوکرے بٹور رہی ہوتی ہیں۔
موبائل فون ہماری زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے نہ کہ دوسروں کی زندگیاں مشکل بنانے کے لیے،نئی شادی شدہ خواتین کو موبائل فون کا استعمال ضرورت کے تحت اور دیکھ بھال کر کرنا چاہیے۔ سسرال کی بے جا شکایات، سسرال کے اندونی معاملات اور چھوٹی موٹی باتوں کی پل پل میکے یا رشتے داروں میں اطلاع دینا ازدواج تعلقات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور میاں بیوی دونوں کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا رشتہ بچانے کے لیے صبر و تحمل سے کام لیں تاکہ لوگوں کی لگائی بجھائی میں اپنا گھر اور رشتہ محفوظ بنا سکیں۔
جزاک اللہ خیرا میری تحریر کو اپنے بلاگ پہ شائع کرنے کے لیے..
بہت شکریہ..