کرونا وائرس اور آن لائن طریقہ ٔ تعلیم کی ضرورت

چین کے شہر دوہان سے اٹھنے والی کرونا کی وبا آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق یہ وبا چین سے اٹلی، برسلز، امریکہ ، برطانیہ، اسرائیل سے ہوتی ہوئی مشرق وسطیٰ، ایران ، پاکستان اور آخری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ کہ اب کا زور کافی حد تک کم ہوچکا ہے لیکن بہر حال یہ ابھی بھی کافی خطرناک اور جان لیوا ہے اور اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

چونکہ یہ وبا سانس اور چھینک کے ذریعے لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہے، تو اس سے بچنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ عوامی اجتماعات اور بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے۔کئی ممالک نے احتیاط کے طور پر اسکولوں کو عارضی طور پر بند کردیا ہے۔اگرچہ کہ بچوں کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ایک مناسب فیصلہ کہا جاسکتا ہے ،لیکن تعلیم کا جو حرج ہوگا اس کا ازالہ کیسے ہو؟ سندھ اور بلوچستان حکومت نے اسکولوںکوبند رکھنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اب صور تِ حال یہ ہے کہ اسکول کے بچوں کے سالانہ امتحانات سر پر ہیں اور پندرہ مارچ تک اسکول بند کردیے گئے ہیں۔بچوں کی تیاری کیسے ہوگی؟ نصاب کیسے مکمل کیا جائے گا؟ تعلیمی نقصان کیسے پورا ہوگا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اس صورتِ حال میں تعلیمی اداروں کو کیا کرنا چاہیے؟ایک طریقہ تو یہ ہے کہ گھر بیٹھ کر چھٹیوں کے مزے بھی لیے جائیں اور ساتھ ساتھ انتظامیہ، حکومت کو بھی کوسا جائے اور یوں ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہیں گئی‘‘ والی صورت حال ہوگی۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بقول شاعر

؎ شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا 

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تو اب اسکولوں کو اس کا حل تلاشنا ہوگا۔ اسکولوں کی بندش کی جو صورتِ حال اس وقت ہے، وہ ماضی میں بھی تھی۔ جب ہنگامے ہوں، سب سے پہلے اسکول بند۔ موسم خراب ہو تو اسکول بند، کوئی اہم کرکٹ میچ ہو اسکول بند، ٹیم کوئی بڑا میچ جیت گئی اسکول بند۔بارشیں زیادہ ہوں تو ہفتوں کے لیے اسکول بند۔

اس لیے اب اس کا حل نکالنا ہوگا میری ناچیز رائے میں اس کا حل یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعما ل کرتے ہوئے آن لائن کلاسز اور ویڈیو لیکچرز کو فروغ دیا جائے۔ اگرچہ کہ یہ اسکولوں کی روایتی تدریس کا نعم البدل نہیں ہے، لیکن بہر حال طلبا کے تعلیمی نقصان کا کسی حد تک ازالہ ضرور کرسکتا ہے۔فیس بک، اسکائپ،واٹس ایپ کے ذریعے با آسانی گھر بیٹھے بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ طلبہ و طالبات کو آن لائن براہ راست تعلیم دی جائے بلکہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ویڈیو پر لیکچرز ریکارڈکرکے واٹس ایپ ،فیس بک، یو ٹیوب یا اسکول کالج کی ویب سائٹ پر دیا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر بیٹھے روتے رہنے سے اچھا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن لیکچرز کا انعقاد کیا جائے تاکہ تعلیمی نقصان کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکے۔

18 تبصرے

  1. I used to be recommended this blog by my cousin. I am now not
    certain whether or not this post is written by means of him as
    nobody else recognize such targeted approximately my
    trouble. You’re incredible! Thank you!

  2. Wow that was unusual. I just wrote an extremely long comment
    but after I clicked submit my comment didn’t appear. Grrrr…
    well I’m not writing all that over again.
    Anyhow, just wanted to say great blog!

  3. Today, I went to the beachfront with my kids. I found a sea
    shell and gave it to my 4 year old daughter and said “You can hear the ocean if you put this to your ear.” She placed the shell to her ear
    and screamed. There was a hermit crab inside and it pinched her
    ear. She never wants to go back! LoL I know this is totally off topic but I had to tell someone!

جواب چھوڑ دیں