میڈیا معاشرے کی برائی

مادر پدرآزاد میڈیابھاگتی دوڑتی زندگی کے اس دور میں جہاں ہر ایک انسان ایک دوسرے سےآگے بڑھنے کی دوڑ میں لگا ہے، وہیں ہمارا میڈیا بھی اسی کوشش میں ہے کہ کسی طرح وہ آگے نکل جائے اور اس دھن نے ہر چینل کو بے لگام اورآزاد کردیا ہے۔ اپنی ریٹنگ اور ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں جس کی جو مرضی آتی ہے، وہ دیکھائے جارہا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟

کسی بھی چینل کے ڈرامے لگا کر دیکھ لیں صرف اور صرف بے حیائی، بے راہ روی،ساس بہو کے جھگڑے،شوہر کی بیوی سے یا بیوی کی شوہر سے بے وفائی،جنسی زیادتی،نافرمان اولاد،والدین کا اولاد سے بے پروا ہونا ،بس یہی سب دیکھایا جارہا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی چینل کے پاس کوئی اصلاحی مواد رہ ہی نہیں گیا دیکھانے کو۔ ڈرامے تو ڈرامے اب تو مارننگ شوز کا جو فیشن چلا ہے، تو وہ بھی کسی سے کم نہیں ان میں بھی بے حیائی سے بھرا مواد ہی دیکھایا جاتا ہے۔یہ تو ان سب کا ذکر ہے جو نام نہاد انٹرٹینمنٹ کے نام پر دیکھایا جاتا ہے۔

اب بات کریں نیوز چینلز کی تو وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ جتنے منہ اتنی باتیں، اب میڈیا کے اس دور میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ “جتنے چینل اتنی خبریں”،نیوز چینل والے بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں ہر سچی جھوٹی خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتے ہیں اور ٹاک شوز میں ہونے والا ہنگامہ ایک طرف جس کا مقصد سوائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے اور کچھ نہیں۔ اپنے ملک کے خلاف منفی خبریں پھیلانے میں بھی ہمارا میڈیا آگے ہے ۔آخر اتناآزاد اور خود مختار میڈیا ہوا کیسے؟میڈیا کی اس خود مختاری اورآزادی کے پیچھے سارا ہاتھ ان سر پرست اداروں کا ہے، جن کے پاس اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ہے، جیسے کہ پیمرا، جنہوں نے چینلز کو اتنی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ انکا جو دل کرتا ہے، اسے نشر کرتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے ملک و عوام کوفائدہ ہوگا یا نقصان ۔ وہ صرف اپنے فائدے کا سوچ کر سب کرتے ہیں، عوام یا ملک کے مفاد یا نقصان سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔میڈیا کنٹرول اٹھاریٹیز کو چاہیے کہ چینلز کو ہر چیز دیکھانے کی آزادی نہ دیں بلکہ چیک رکھیں کہ کیا دیکھانا چاہیے کیا نہیں ؟ورنہ معاشرہ مزید اخلاقی پستی و زوال کا شکار ہوتا چلا جائے گا اور اس کا ذمہ دار صرف اور صرف میڈیا ہی ہوگا کیونکہ نظر جو دیکھتی ہے اسکا اثر بہت ہوتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں