ستائیس فروری اور کرونا حملہ

ستائیس فروری ۲۰۱۹ کو ہمارے پڑوسی ملک نے ایک بار پھر پاکستان کے کسی شہر میں ناشتہ کرنے کا خواب دیکھا (جیساکہ ایک بار پہلے دیکھنے کی ناکام کوشش کی )لیکن پاکستان نے دشمن کی ہمت کی داد دی اور بطور سرپرائز باقاعدہ چائے پلائی، جوکہ دشمن فوجی جوان کو پسند بھی بہت آئی (اسکے پسند کے اظہار کو بھی دنیا نے خوب تماشا بنایا)، پاکستان نے روائتی مہمان نوازی کی اعلی ترین مثال قائم کی۔

جہاں دشمن کے سینے پر سانپ لوٹ گئے ہونگے وہیںمہمان نوازی کا طرز سینہ روندگیا ہوگا، دشمن کیلیے دوسری بڑی دکھ کی بات یہ تھی کہ چائے پینے کی جوہوشربا قیمت انکے ہواباز ابھی نندن نے ادا کی وہ تقریباً سینتالیس ملین ڈالر تھی، یہ کتنا شدید دکھ و صدمہ تھا کہ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن افسوس کہ دکھ جس کو پہنچا وہ اف بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ لیکن بھارت نے اپنی پاکستان دشمنی یا اسلام دشمنی کا بدلہ ایک طرف تو کشمیرکو کربلا بنا کر لینے کی کوشش کی جس میں وہ تاقیامت بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔

اگلا حربا جوکہ انتہائی بزدلانا اور غیرانسانی و غیر جمہوری اپنایا گیا وہ تھا بھارتی حکومت کا بھارتی مسلمانوں کو اپنی دیرینہ نفرت کاعملی نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ماضی میں ایک وقت تھا جب ہندو مسلم فسادات کہا جاتا تھا لیکن جب سے شہریت کا بل نافذ العمل ہوا ہے اور مسلمان اپنی بھارتی شہریت کھوبیٹھے ہیں ، اب بھارتی مسلمان صرف مسلمان ہوکر رہ گئے ہیں جسکی وجہ سے اب وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہے اور صرف بری طرح سے مار کھا رہے ہیں اور اپنی جانیں دے رہے ہیں۔

سماجی ذرائع ابلاغ کے توسط سے جس قسم کی تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آرہی ہیں انتہائی دل خراش ہیںلیکن ابھی تک دنیا پر ان ویڈیوز کا اثر نہیں ہو پارہا،ہو بھی کیسے سکتا ہے جب شام کہ معصوم بچے اپنی بے بسی سے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کروا سکے تو پھر یہ تو ویسے بھی تیسری دنیا کے مسلمان ہیں۔ ہم پاکستانی ستائیس فروری پاکستانیوں کیلئے ایک تاریخ ساز دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور ہم اس دن کو قومی دن کی طرح منایا کرینگے با لکل جس طرح یوم پاکستان، یوم دفاع اور جشن آزادی مناتے ہیںاس دن کو واقع کی مناسبت سے سرپرائز ڈے کا نام دیا گیا ہے اور اپنے ایک نہیں تمام زمینی دشمنوں کو یہ باور کرائینگے کہ ہم سیاسی طور پر بھلے ہی غیر مستحکم ہوں ہمارے ملک میں جمہوریت بھلے ہی گھٹنوں کے بل چلتی ہو لیکن ہماری عسکری قوت کے استحکام اور عزم پر کبھی بھول کر بھی شک نہیںکیا جاسکتااور آزمانے والے بھگت چکے ہیں، اس بات کا اندازہ بخوبی دشمن ہو گیا ہوگا۔

امریکہ بھی ہماری صلاحیتوں کا ادراک کرچکا ہے اور اس ادراک کا ایک عملی جلوہ صدر ٹرمپ کا دورہ بھارت پر پاکستان کیلئے اور پاکستان کی موجودہ قیادت کیلئے بھارت کی تاریخ کے سب سے بڑے مجمعے میں تعریفی کلمات کا واشگاف الفاظ میں ادا کرنا اور اس طرح کے جیسے باورکرایا ہو۔ہم پاکستانی ستائیس فروری کی مناسبت سے تیاریاں اور سماجی و دیگر ذرائع ابلاغ پر اپنی خوشی کی خبریں شائع کرنے میں مصروف تھے ، جبکہ دوسری طرف ہمارے دیرینہ دوست چین میں کرونا نامی جرثومے نے قیامت برپا کی ہوئی ہے اور ہر ممکن کوششوں کے باوجود یہ جر ثومہ ابتک سینتالیس ممالک میں پہنچ چکا ہے تقریباً ان میں ایک دو اموات کا بھی سبب بنا ۔

کرونا جرثومے نے پاکستان میں داخل ہونے کیلئے بھی ستائیس فروری کی تاریخ کا انتخاب کیا اور پہلی شناخت کی خبر ستائیس فروری کو عام ہوئی ۔ مصدقہ خبر کے مطابق یحیی جعفری نامی بائیس سالہ نوجوان جو کچھ روز قبل ایران سے اپنے دیگر ہمنوائوں کے پاکستان پہنچا تھا ، اس بری خبر کا سبب بنا ، اچھی خبر یہ تھی کہ ابھی یہ جرثومہ اندرونی تخریب کاری کے ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ دھر لیا گیا(تازہ ترین اطلاعات کیمطابق مریض کی صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے )۔

ذرائع ابلاغ کے توسط سے جو آگاہی عام ہوئی وہ یہ تھی کہ چین کے وہ علاقے جہاں یہ جراثومہ فعل تھا کسی کرفیو زدہ علاقے کی تصویر بن کر رہے گئے ۔ کہیں گولے اور بارود نے شہروں میں بسنے والی زندگیوں کو برباد کر کے رکھا ہوا ہے تو یہاں چین میں ایک نا دیدہ جرثومے نے ناصرف زندگیاں نگل لی ہیں بلکہ کسی خونی بھوت کی طرح راج کر رہا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا ابھی تک اس جرثومے کے خاتمے یا روک تھام کیلئے کوئی دوا تیار نہیں کرسکا جویہ سوچنے پر بھی مجبور کر رہا ہے کہ دنیا کی آبادی کو لاحق خطرات انسانی زندگی سے ہی ہیں ۔

تو کون ہے جو انسانو ں کو کم کر کے اپنے لئے دنیا کو سازگار بنانے کی کوشش کررہا ہے ، یا پھر اپنی طاقت کی جیسی کسی طاقت سے خوفزدہ اسے کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے، ان باتوں میں اگر کچھ سچائی ہے تو ان پر سے جلد ہی وقت پردہ اٹھا دے گا۔ لیکن دشمن اس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ لے کہ پاکستانی اپنی سرزمین اپنی سالمیت پر کسی بھی قسم کے بیرونی حملے کو برداشت نہیں کرتے اور ہر قسم کے طرز کو برباد کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ دنیا دیکھے گی کہ یہ کرونا جرثومہ جو کہ ستائیس فروری کو ایک ایسے دن پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے داخل ہوا ہے اب کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔

پاکستان کے تمام دشمنوں کیلیے یہ پیغامِ عام ہے کہ ہم ہر طرح کی لڑائی لڑسکتے ہیں ہم ہر دشمن کو قدرت کی مدد سے زیر کرسکتے ہیں لیکن ہم ستائیس فروری کو صرف بھارت کو سیکھائے گئے سبق کی یاد منانا چاہتے ہیں، اس لئے بھلے ہی کتنا ہی بڑا کوئی وار کر لیا جائے ہم ابھی نندن اور اسکے ٹکڑوں میں بٹے مگ 21 ہمارے عجائب خانوں میں رکھے ہمارے بہادر شاہینوں کی بہادری کی داستان سناتے رہینگے ہر سال سرپرائز دن مناتے رہینگے۔ ہم نے ابھی نندن کو بھی کچھ دن اپنا مہمان بناکر رکھا اور پھر اسے خیر سگالی کے لیئے خطے کے امن کیلئے تقریباً ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی بقاء کیلئے اسے اس کے گھر یعنی بھارت بھیج دیا ، اب ہم کچھ دن کرونہ جرثومے کو بھی پناہ دے دینگے کیونکہ ہم مہمان داری کرنا بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن مہمانوں کو اپنے گھراور گھروالوں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں