چین کے جدید ترین” کورونا میزائل”

خبر گرم ہے کہ پاکستان نے پاک ایران سر حدیں بند کردی ہیں اور سرحدوں کے نزدیک انسانی نقل و حرکت پر سخت پابندی عائد کرکے چپے چپے پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطا بق پاکستان نے حفاظتی اقدامات کے تحت ایران سے ملحقہ سرحد بند کردی ہے۔ ایران جانے والے مسافروں کو تفتان سرحد پر روک دیا گیا جب کہ ایران میں موجود پاکستانی زائرین کو فی الحال وہیں ٹھہرائے رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایران میں مہلک کورونا وائرس سے 8 افراد کی ہلاکت کے بعد بلوچستان حکومت نے ایران سے منسلک سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت پوری طرح الرٹ ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں سے کوئی بھی ایران میں داخل نہیں ہو گا۔کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کی وجہ سے چین سے دنیا کے تمام بڑے ممالک اپنے اپنے رابطے توڑنے کیلئے تو تیار ہو ہی گئے ہیں لیکن چین کی جانب آمد و رفت کی وجہ سے دیگر ممالک میں یہ وبا جس طریقے سے اپنے پنجے گاڑتی ہوئی نظر آرہی ہے لگتا ہے کہ بہت سارے ممالک ایک دوسرے سے جلد اپنے اپنے رابطے منقطع کر لیں گے اور یوں تمام ممالک خشکی پر ہونے کے باوجود بھی جزیرہ نما بن کر رہ جائیں گے۔

جس خطرناک انداز میں یہ وائرس پھیل رہا ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ یہ وائرس “حیاتیاتی” خاندان سے کم اور کسی قسم کی “ایجاد” زیادہ ہے۔ ایک ایسی ایجاد جس کو جب چاہے اور جہاں چاہے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا وائرس جو انسانی جسم میں منتقل ہو کر یا پرورش پاکر کسی دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھنے کے علاوہ ہر مصنوئی شے کے ساتھ لپٹ کر بھی نہ صرف زندہ رہ سکتا ہے بلکہ اپنے آپ کو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں بڑھانے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کہاں کہاں نہ پھیل سکے اور کہاں کہاں تک نہ پھیل گیا ہو۔ آنے والے دنوں میں یہ دنیا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب بنتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔

چین جو دنیا کی معیشت پر بری طرح چھایا ہوا تھا، جب دنیا اس سے ہر قسم کے رابطے توڑ لے گی تو پھر دنیا کے ہر ملک پر جو منفی اثرات مرتب ہونگے، کیا دنیا اس کا مقابلہ کر پائے گی۔وہ کونسا ترقی یافتہ یا پسماندہ ملک ہے جس کے بازاروں میں چین کی مصنوعات موجود نہ ہوں اور دنیا کا وہ کونسا پورٹ ہوگا جہاں چین کی اشیا سے لدے کنٹینرز موجود نہ ہوں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو ہر شے کے ساتھ لپٹ جانے کے باوجود نہ صرف زندہ رہتا ہے بلکہ بڑی برق رفتاری کے ساتھ اپنی افزائش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آنے والے دنوں میں جب بازار کے بازار مشکوک ہو جائیں گے، کھرب ہا کھرب اشیا تلف کی جارہی ہونگی اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کی اجازت تک نہ ہوگی تو چمچماتے شہر اور ہنستی مسکراتی زندگی دیکھتے دیکھتے کیسے ویرانے میں بدل جائے گی۔

جب تحقیق سے اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ کورونا وائرس کرنسی نوٹوں سے لیکر کسی بھی شے کے ساتھ چمٹ کر کہیں بھی منتقل ہو سکتا ہے تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ کیڑے مکوڑوں کے ذریعے اور پرندوں کے پروں پر سوار ہو کر دنیا کے طول و عرض میں نہیں پھیل سکتا۔ سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ جانوروں اور پرندوں کی بیماریاں عام طور پر نہ تو انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں اور نہ ہی انسانوں کی بیماریوں سے دیگر حیات متاثر ہوتی ہے اس لئے اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ جن جانوروں یا پرندوں کے ساتھ کورونا وائرس چمٹ کر جا رہے ہونگے وہ کسی اور منزل سے تک پہنچنے سے قبل ہی ہلاک ہوجائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ احتیاط ایک بہت ہی اچھی شے ہے لیکن جس قسم کی احتیاط ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کرنے کی تدابیر اپنا رہے ہیں کیا یہ احتیاطیں اس کا حل ہیں؟۔ کیا ایک دوسرے سے تعلقات کا بالکل ہی توڑلینا تیزی سے پھیلتی اس بیماری کا توڑ ثابت ہو سکے گا؟۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر اسی قسم کی سخت قدغنیں عائد کی گئیں تو کورونا سے ہلاکتیں تو شاید کم ہوجائیں لیکن ہر ملک کی بگڑ جانے والی معاشی صورت حال انسانوں کی بستیاں کی بستیاں اجاڑ دینے کا سبب ضرور بن جائے گی۔

دنیا کے ممالک تو اس صورت حال سے پریشان ہی ہیں لیکن جس ہیجانی کیفیت کا شکار اس وقت چین ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ دنیا کی ایک ایسی طاقت جس سے بڑی بڑی طاقتیں لرزہ براندام نظر آ رہی تھیں وہ خود تپِ لرزہ کے مریض کی طرح تھر تھر کانپتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کا اتنی بری طرح دباؤ میں آجانا بے شک خود چین کیلئے تو ایک بڑا امتحان اور عظیم نقصان ہے ہی، دنیا اور خصوصاً پاکستان کیلئے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ملک میں چین ہی ایک ایسا ملک رہ گیا تھا جو پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اور ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور برس ہا برس سے جھوٹی دوستی کا دعویٰ کرنے والا امریکا کافی پریشان پریشان سے دکھائی دینے لگے تھے اور اس بات کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح پاکستان اس معاہدے سے باہر آ جائے۔

موجودہ صورت حال ان دونوں ممالک کیلئے بڑی طمانیت کا باعث ہوئی ہوگی۔ اس نقطہ نظر سے چین میں پھیلنے والے اس وائرس سے پاکستان کی معیشت کو بھی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے اس لئے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں فروخت ہونے والی بیشتر اشیا چین ہی کی تیار کردہ ہیں۔ اگر کسی وقت بھی یہ اعلان سامنے آگیا کہ تمام مارکٹوں کو فوری طور پر بند کر دیا جائے اور اس وقت تک نہ کھولا جائے جب تک حکومت کی جانب سے کلیرینس نہ مل جائے تو ایسا کوئی بھی اعلان یک دم ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسا نہ بھی ہوا تب بھی تجارتی سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے آئندہ آنے والے چند ماہ پاکستان کی معیشت کیلئے کوئی اچھی نوید سناتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

ان سارے حالات کو سامنے رکھا جائے تو ایک اور پہلو بھی بھی دنیا کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ چین کوئی ایسا ملک نہیں جو اپنی تباہی و بربادی کو آسانی کے ساتھ دیکھتا رہے گا۔ اول تو چین اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کیلئے مسلسل جد و جہد میں لگا ہوا ہے لیکن اگر چند لمحوں کیلئے یہ فرض کر لیا جائے کہ چین اس آفت سے نمٹنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور پوری دنیا اس سے رابطے منقطع کر لیتی ہے تو کیا چین اس بات کو برداشت کر سکے گا کہ وہ دیکھتے دیکھتے دنیا کے نقشے سے ختم ہو کر رہ جائے۔ یہ ہے وہ نقطہ جس پر دنیا بھر کے ممالک کو بھر پور نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

میرے نزدیک اس اہم موڑ پر دنیا کے ہر ملک کے پاس دو ہی آپشن ہیں، ایک یہ کہ پوری دنیا ملکر چین کو اس مصیبت سے چھٹکارہ پانے میں مدد دے اور خاص طور سے وہ ممالک جو اس وقت بہت ترقی یافتہ اور بہر لحاظ طاقت و قوت والے ہیں جبکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ چین کی تباہی کا تماشہ دیکھیں۔ ہر وہ ملک جو بے پناہ طاقت و قوت رکھتا ہے اپنے ہر مقابلے والے کی تباہی و بربادی کا اس لئے متمنی ہوتا ہے تاکہ وہ طاقت میں یک و تنہا رہ جائے، اس لئے طاقتور ممالک سے چین کا ساتھ دینے کا سوال کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اس صورت میں چین کیا صرف تباہ و برباد ہوجانا ہی پسند کرے گا یا پھر وہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اس قابل نہیں رہنے دیگا کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے رہ سکیں۔

چین نہ صرف دنیا کی ایک طاقت ہے بلکہ اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ وہ دنیا سے کن کن امور میں انفرادیت رکھتا ہے۔ جب دنیا چمڑوں، کپڑوں اور درختوں کی چھال پر اپنی تحریریں محفوظ کیا کرتی تھی اس وقت بھی چین کاغذ ایجاد کرکے علم کے خزانے کتابوں میں محفوظ کیا کرتا تھا اس لئے وہ دنیا کو حیرت میں ڈالنے کی کیا کیا ایجادات رکھتا ہے، دنیا ممکن ہے اس سے بے خبر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس وائرس کا اس وقت چین شکار نظر آ رہا ہے یہ “حیاتیاتی” کم اور کسی تجربے کی ناکامی کا شاخسانہ زیادہ ہو۔

مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ یہی تباہی و بربادی کی جانب بڑھتا ہوا ملک دنیا پر کوئی ایٹمی حملہ کرنے کی بجائے پوری دنیا میں کورونا وائرس کے انسانی میزائیلوں کو ہی تمام ترقی یافتہ ممالک میں برسانہ شروع کردے تو کیا دنیا کے پاس اس کا بھی کوئی توڑ ہوگا؟۔ مجھے یقین ہے کہ چین کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ تنہا برباد ہو جائے اور طاقتور ممالک اس پر دوبارہ حکومت کرنے لگیں۔ اس لئے دنیا کو چاہیے کہ وہ صرف تماشائی نہ بنے بلکہ اس آفت سے نہ صرف چین کو باہر نکالے بلکہ اپنے آپ کو بھی ممکنہ تباہی سے محفوظ رکھنے تدابیر اختیار کرے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں