کراچی کا محسن،خدمت کا استعارہ

دراز قد سرخ وسفید چہرہ ، ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر جب میں نے گورنمنٹ اسکول کے افتتاح کے موقع پر ان سے مصافحہ کیا ۔یہ کیسا مرد درویش تھا جس کے آگے پیچھے ہٹو بچو کی صدائیں نہیں تھیں ۔ مجھ جیسا ایک عام آدمی بھی اس کے قریب جاتا سلام کرتا، مصافحہ کرتا۔وہ ہر ایک منصوبے کا راتوں کو جاگ کر خود معائنہ کرتا ۔

سردی ،گرمی ، بارش اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کسی جوان کی طرح شہر کے چاروں طرف جس کا سفر رہتا ۔وہ جس کو اپنے شہر کے ہر فرد کی فکر تھی ۔ بچّوں کی فکر تھی مرد وخواتین سب کی فکر تھی ۔ ان دنوں شہر کے کئی مقامات پر انھوں نے فہم قرآن کے کورسز کرائے اور اس میں تمام شہریوں مرد وخواتین اور بچّوں کو انھوں نے دعوت دی ۔

دعوت نامے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کوبھی بھیجے گئے ۔ مجھے بھی اس کورس میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔وہ کراچی کا محسن صرف سڑکیں اور پانی کی لائینیں اور پارکس نہیں بنانا چاہتا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اگر سڑکیں سونے کی بھی بنادی جائیں اور سہولتوں کے انبارلگادئیے جائیں تب بھی انسان کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کےسڑک پر چلنے والا اپنے رب کا بندہ نہ بن جائے۔

وہ ایک ناظم شہر ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک داعی بھی تھا جس کی ساری زندگی دعوت اور خدمت کا استعارہ تھی۔ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب موبائل دیکھا تو إنا لله وإنا إليہ راجعون سابق ناظم شہر کی وفات کی جان کاہ خبر نے دل کو بے قرار کرکے رکھ دیا ۔ پھراس حدیث نے ذہن و دل کو دلاسا دیا کہ الدنیا سجن المؤمن و جنت الکافر دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔

سولہ سال کی عمر میں تحریک پاکستان میں شامل ہوئے ۔پاکستان بننے کے بعد کراچی آئے آپ کی یہ ہجرت اجمیر سے تھی اسلامی پاکستان کے لیے سب کچھ چھوڑ کر جب کراچی آئے تو یہاں انھوں نے پہلی رات فٹ پاتھ پر گزاری علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جاری کیا وکالت کی دگری لی اسکےبعد ایم اے کیا اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔

زمانہ طالب علمی میں ہی آپ نے اپنی زندگی کے لیے حق کے اس راستے کا انتخاب کیا جو انسانیت کے لیے فلاح کا راستہ ہے ۔ آپ نے اپنے مقصد کے حصول کےلیے اسلامی جمعیت سے وابستگی اختیار کی ۔ جب تعلیمی دور گزر گیا تو آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی ۔نعمت اللہ خان صاحب ایک عوامی فرد تھے آپ مرجع خلائق تھے لوگ آپ کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے آتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ مسئلہ حل کیاجائے۔

2001 میں جب لسانی عصبیت کی آندھیا ں کراچی کے ماحول کو پرگندہ کیے ہوئے تھیں ۔ انسان کا اپنے نظریات پر قائم رہنا مشکل تھا اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ احساس محرومی پیداکرنے والے عصبیت کے علمبرداروں کی پیروی کرنے لگے اور ان کے ہی نظریات پر اپنا سب کچھ قربان کرنےپر تیار ہوگئے ایسے میں اس پیر مرد نے جرات اور حوصلے سے کراچی کے سٹی ناظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

وہ جانتے تھے کہ ان کے راستے کی رکاوٹ چلتی ہوئی عصبیت کی آندھی بھی ہوگی ، مسند پر بیٹھا آمر بھی ہوگا ، اور بدنام زمانہ گورنر بھی ہوگا ۔ مگر ان سب کے باوجود ان کے پاس اللہ پر ایمان اور دیانتداری تھی اور پوری الخدمت کی ٹیم تھی جس کو ساتھ لے کر آپ نے پورے کراچی کو عروس البلاد بنانے کا فیصلہ کیا اس کی روشینوں کو لوٹانے کا فیصلہ کیا پھر اس کے لیے اپنا وقت ،صلاحیت اور قوّت سب کچھ لگادیا۔

مگر یہ سب کچھ احسا س محرومی پیدا کرنے والا گروہ برداشت نہ کرسکا۔ ہر کام میں روٹے اٹکانے کی کوشش سرکاری سطح پر ہوتی رہی مگر یہ مرددریش اپنےکا م کو جرات کے ساتھ کرتا رہا وہ آنے والی نسل کو ایک سجا ہوا ، روشیوں کا ایسا شہر دینا چاہتا تھا جس کی راتیں جاگتی ہوں ۔ علم ہنر کا شہر جو کہ ساری دنیا میں اپنی پہچان آپ ہو، تمام قومی اکائیاں مل جل کر یہاں ایک گلدستے کی مانند ہوں۔مگر ایسا ہوجائے تو ان دکانداروں کا کیا بنے گا جو لسانیت کی دوکان سجائے بیٹھے تھے ،دوکانوں پر بھتّے لینے کے لیے لوگوں کو بھیجتے جن کی سفّاکی کی تصویر بلدیہ کی فیکٹری ہے ۔

افتتاح کی تختیاں تیزی کے ساتھ لگنی شروع ہوئیں اور ایک ایک دن میں کئی کئی منصوبو ں پر کام شروع ہوا ۔ منصوبوں کی نگرانی کا کام خود راتوں کو دورہ کرکے کرتے ۔پورے شہر کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوچکاتھا، بڑی بڑی بسیں سڑکوں پر رواں دواں تھیں جن میں ائر کنڈیشن بسیں بھی تھیں ۔ ایک غریب آدمی بھی اپنی روزی کے لیے محض پانچ روپے میں سفر کرسکتا تھا ۔ سکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کاکام اور صحت کے مراکز اورہسپتالوں کا قیام ان کی اوّلین ترجیح تھی ۔ ان کاموں کو آپ نے بہت تیزی کے ساتھ کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔

اپنے دور نظامت میں انھوں اتنا کام کیاکہ ان کا شمار عالمی طور پر بہترین میئر میں ہونے لگا جس کا اعتراف تمام اخبارات کی زینت بھی بنا۔جو کام آپ نے اپنے دور میں کرائے وہ کام دس سالوں میں بھی کوئی میئر نہ کراسکا بلکہ آج شہر کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے ۔جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں ۔گلیاں تاریک ہیں ۔ جن میں جرائم پیشہ افراد پل رہے ہیں اور کسی شہری کی جان مال عزت و آبروں محفوظ نہیں ہے۔پانی کے لیے لمبی لائینیں ہیں جس میں بزرگ ،بچّے اور عورتیں نظر آرہی ہیں ۔

ان حالات کو بہتر بنانے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے جرات کے ساتھ دوبارہ انھی ہاتھوں میں شہر کی قیادت سپرد کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو اسلامی اور خوشحال کراچی دے سکیں جو کہ ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔

                                             آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

                                             سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

جواب چھوڑ دیں