پاکستان کی معیشت میں استحکام کی منزل ابھی تا حد نظر دورہے، اس وقت ملک کی معاشی نمو 9سال کی کم ترین سطح پر ہے اور معیشت عملی طور پر منجمد ہوچکی ہے جس کے باعث مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق خود اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو قومی اقتصادیات خصوصاً بینکنگ سیکٹر کی رہنمائی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، ایک ارب روپے سے زائد کے خسارے میں چلا گیا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔
اگر اس صورتحال پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو خسارے میں جانے والے دوسرے قومی اداروں کی طرح یہ مسئلہ بھی دائمی ہونے کا احتمال ہے۔ جبکہ ملکی معیشت کی کارکردگی پر سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ اقتصادی حالات کی سنگینی اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے ، جس کے مطابق مالی سال2018-19 ء معیشت کے پیداواری شعبوں، خاص طور پر زراعت اور صنعت کے لیے بھاری ثابت ہوا۔ اس ایک برس میں ان دو شعبوں کی کارکردگی سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔
زراعت کی نمو جو ن2018 ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 3.9 فیصد تھی، تاہم جون 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران زراعت کی نمو صرف 0.8فیصد رہ گئی۔ اسی طرح صنعت کی نمو 4.9فیصد سے گر کرمحض 1.4فیصد پر آ گئی۔ چنانچہ معیشت کے زوال پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سب سے زیادہ توجہ زراعت اور صنعت کو دینا ہو گی تا کہ بحران کے ایک سال کے خسارے پر قابو پایا جا سکے ۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہی دو شعبے ہیں جو افرادی قوت کو ملازمت کے زیادہ مواقع مہیا کرنے کے علاوہ دیگر کئی شعبوں کیلیے انجن کا کام کرتے ہیں۔
اگر زراعت اچھی ہو گی تو خوراک، ٹیکسٹائل، تیل، بیج، کھاد، ادویات، بینکوں کے قرض، مشینری کی فروخت، غرض لاتعدادشعبوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح صنعت کی ترقی روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، برآمدات میں اضافے اور قومی معیشت کا چہرہ سنوارنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ا سٹیٹ بینک کی جانب سے بھی یہی توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مالی سال 2020ء میں زرعی معیشت کی ترقی سے خسارے میں کمی آ سکتی ہے ۔ غرضیکہ حکومت کے معاشی ماہرین اور پالیسی ساز ادارے اگر اقدامات کرنا چاہیں تو معیشت کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہونے والے اس سال کو کیس ا سٹڈی کے طور پر لے سکتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران قومی معیشت کے اہم ترین شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر خرابیوں کے اسباب تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ قومی معیشت کے بہتر مستقبل کیلیے لازم ہے، کیونکہ جی ڈی پی کی کم ترین شرح نمو نے پاکستانی معیشت کو ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر دلکش بنا دیا ہے ۔
جبکہ بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہمارے ہاں مہنگائی کو مہمیز دیتا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ روپے کی قدر گرنے سے درآمدی اشیا کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر توانائی ، ادویات اور اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھنے سے لوگوں کے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہواہے ۔ اس معاشی صورتحال سے پورے پاکستان کے تاجر، صنعتکار، امپورٹر، ایکسپورٹر سب پریشان ہیں، چھوٹا دکاندار بھی پریشان ہے حتیٰ کہ خریدار بھی۔ ایک اور مذموم روش یہ بھی رہی کہ مذکورہ اشیاء کی گرانی کی آڑ میں ناجائز منافع خوروں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں من چاہا اضافہ کردیا جس سے حالات مزید ابتر ہوگئے ۔
مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافے سے آٹا مہنگے داموں فروخت ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ گندم کی قیمت 1600 روپے فی من تک جا پہنچی ہے ، اگر یہی حقیقت ہے تو قدرتی طور پر آٹے کے نرخوں پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے، اور آٹے کی قیمت 60 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ حالیہ دنوں سبزیوں کی قیمتوں میں بے اعتدالی بھی عوام کیلیے مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ کھادوں کی قیمتیں زائد ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ متاثر ہورہا ہے ، اور زراعت کی ملکی پیداوار، طلب کو پورا نہیں کر پاتی نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے۔ بے اعتدالی و مہنگائی کی ایسی صورتحال کے باعث معاشرے سماجی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں، جرائم بڑھنے لگتے ہیں اور بے یقینی معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر مہنگائی کے تدارک کے لیے موثر اقدامات کرے ۔
خوراک کی قیمتوں میں عدم توازن کے مسائل سے نمٹنے کیلیے ضروری ہے کہ ضروریات اور پیداوار کے فرق کو ختم کیا جائے ، مارکیٹ پر نظر رکھنے سے قیمتوں میں عارضی توازن قائم کیا
جاسکتا ہے۔ جبکہ یہ گندم کی کاشت کا موسم ہے چنانچہ حکومت اگر فوری توجہ دے تو گندم کی آنے والی فصل بہتر ہو سکتی ہے ۔ اگر موجودہ حکمرانوں نے پاکستان کی معیشت کو مضبوطی کی طرف گامزن کر دیا ، نوجوانوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر خوشیاں لوٹا دیں تو پھر آپ ناقابل تسخیر ہو جائینگے ۔اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو پایا تو آپکو اور آپ کی جماعت کو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ نظر آرہا ہے ،لہٰذا زبانی کلامی باتوں سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ پریکٹیکل کرناہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بہترین طرز حکمرانی قائم کرکے قوم کو ریلیف فراہم کیا جائے ، کیونکہ ہماری مہنگائی کی ستائی اور بحرانوں کی ماری قوم مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی سکت نہیں رکھتی۔