اب ترکی اور سعودی عرب آمنے سامنے ہیں، حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ و اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے بغیر نہیں ٹھہر سکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی کے سامنے سعودی عرب خود کتنی دیر تک ٹھہرتا ہے، سعودی عرب کو ترکی کی مخالفت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے، ماضی کی بات کچھ اور تھی، اب معاملہ ایران اور سعودی عرب والا نہیں، پہلے تو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ عالم اسلام کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کیا گیا تھا، جب بھی ایران امت مسلمہ کے کسی مسئلے پر سعودی عرب کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا تھا تو یہ کہاجاتا تھا کہ یہ شیعہ اور سنی کی پراکسی وار ہے۔
سادہ لو ح افراد کے سامنے ایران کو ایک شیعہ اور سعودی عرب کو ایک سنی ریاست بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایران میں ایک شیعہ حکومت قائم ہے، وہاں اہل تشیع کے مجتہد ہیں، اور دنیا بھر میں پائے جانے ولے شیعہ حضرات ان مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں، اس لئے ایران کو ایک شیعہ ریاست کہنا تو واضح ہے لیکن عام آدمی کیلئے یہ ایک معمہ ہے کہ سعودی عرب کیسے اہل سنّت کی نمائندہ ریاست بن گئی!؟
اہل سنت کے سواد اعظم کا جو منہج ہے وہ سعودی مسلک سے بالکل مختلف ہے، یعنی اغلب اہل سنت کے علما و مشائخ ، سعودی عرب میں رائج مذہب کے پیروکار نہیں ہیں۔ دوسری طرف سعودی سلفی یا وہابی علما بھی اہلسنت کے سواد اعظم کو مشرک اور گمراہ کہتے ہیں، مختصر یہ کہ سعودی عرب دینی و مسلکی اعتبار سے اہل سنت کا مرکز نہیں ہے۔ اربابِ دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ترکوں کی تقریباً ساڑھے چھ سو سالہ خلافت عثمانیہ کو آلِ سعود نے ختم کروایا تھا۔یوں اس وقت آلِ سعود کا ایک بڑا اور مضبوط حریف ترکی ہی بنتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں سے سعودی عرب کے مد مقابل تنہا ایران کھڑا تھا، اور ایران ایک شیعہ ملک تھا، دوسرے ایران کے تعلقات امریکہ ، یورپ اور اسرائیل کے ساتھ بھی انتہائی خراب تھے۔ اب معاملہ اس کے برعکس ہے، ترکی نہ ہی تو شیعہ ملک ہے اور نہ ہی اس کے تعلقات امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے ساتھ خراب ہیں اور سعودی عرب کی نسبت ترکی کی اہل سنت میں مقبولیت بھی بہت زیادہ ہے۔اس کے علاوہ جمہوریت، آزادی اظہار، انسانی حقوق اور رواداری کے لحاظ سے بھی سعودی عرب کا ترکی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی حالات سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے مقابلے میں ترکی کے امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات سو گنا زیادہ خوشگوار اور بہتر ہیں، ترکی اس سطح تک سعودی عرب سے آگے ہے کہ وہ 1999 سے یورپی یونین میں شمولیت کا خواہاں ہے اور ۲۰۰۵ میں اس سلسلے میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین باقاعدہ مذاکرات بھی شروع ہوئے تھے جو کئی سال جاری رہے اورفی الحال منقطع ہیں، ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش اس کی ترقی اور پیشرفت کے عین مطابق ہے، اگرچہ ترکی یورپی یونین میں شامل نہیں ہوسکا تاہم ترقی کے اس سفر میں ترکی نے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اس وقت یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی اڈہ اور مالی حصہ دار ترکی ہی ہے۔ اپنے محل وقع کے اعتبار سے ترکی ایک بین البر اعظمی ملک ہے یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ آٹھ ممالک کی سرحدیں لگتی ہیں، اسی طرح نیٹو میں 1952 سے ترکی شامل ہے، امریکہ اپنے تمام فیصلوں میں اسے اہمیت دیتا ہے اور اسرائیل کے وجود میں آنے کے ایک سال کے بعد ہی ترکی نے اسے تسلیم کر لیا تھا اور ابھی تک ترکی اور اسرائیل کے مابین انتہائی مثالی تعلقات قائم ہیں۔
ہم اس وقت ترکی اور اسرائیل کے مثالی تعلقات کی صرف سال ۲۰۰۵ سے اب تک کی چیدہ چیدہ کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں:مثلا مئی 2005 میں جب مسٹر اردوان نے اسرائیل کا دورہ کیا تو اسرائیلی وزیراعظم (ایریل شیرون) نے ان کا پر جوش استقبال کیا ۔ اسی طرح 2007 میں اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے ترکی کا دورہ کیا اور یہ پہلا اسرائیلی صدر تھا کہ جس نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔مختصراً عرض یہ ہے کہ 9 مئی 2018 کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں قائم اسرائیلی سفارتخانے میں اسرائیل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے کا جشن منایا گیا ، اس جشن میں ترک وزیر خارجہ سمیت ترکی کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔
سال 2018 میں اسرائیل اور ترکی کے مابین تقریبا 6 ارب ڈالرز کے حجم کی تجارت ہوئی اور اس سال تین لاکھ بیس ہزار اسرائیلی باشندوں نے سیروسیاحت کی خاطر ترکی کا سفر بھی کیا ہے۔
یہ ساری معلومات ، معلوماتِ عامہ ہیں اور کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کے فراہم کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ترکی کا اسلامی خلافت کا دعویٰ تاریخی اور سیاسی لحاظ سے سعودی عرب پر بھاری ہے۔ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے بیچ میں ایران اور پاکستان کا کیا کردار رہے گا!؟ایک بات تو واضح ہے کہ ان دونوں حریفوں میں سے اسی کا پلڑا بھاری رہے گا جس کے پلڑے میں ایران اپنا وزن ڈالے گا۔ لیکن مسئلہ پاکستان کا ہے، ایرانی قیادت نے عالمی پابندیوں اور اپنی تمام تر اقتصادی مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنے عوام کو دوسرے ممالک کا آلہ کار نہیں بننے دیا ، یہی وجہ ہے کہ ایران میں عوام کو دہشتگردی سکھانے کے کیمپ نہیں ہیں اور نہ ہی لوگوں کو خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی ترغیب دی جاتی ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں حکمران مال بٹورنے کیلئے اپنے عوام کو آسانی کے ساتھ آگ اور خون کی بھٹی میں ڈال دیتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے سعودی خلفا سے ریال اور ڈالر وصول کرنے کیلئے عوام کو افغان جنگ میں جھونکا اور اب اگر اسی طرح ترکی کے کہنے پر لوگوں کو ترکی شہریت اور دیگرا مداد ملنے کا جھانسہ دے کر کسی نئی جنگ میں جھونک دیا تو یہ ہمارے لئے بہت ہی برا ہوگا۔
اس وقت ہر صاحبِ بصیرت یہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کیلئے یہ انتہائی مناسب وقت ہے کہ وہ سعودی عرب یا ترکی کی طرف جھکنے کے بجائے سب سے پہلے اپنے قومی مفادات کو دیکھیں، اپنی سرحدوں پر منڈلاتے ہوئے خطرات کو معمولی نہ سمجھیں، مسئلہ کشمیر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کریں، اپنے اقتدار اعلیٰ، قومی غیرت و حمیت اور ملکی مستقبل کا از سرِ نو جائزہ لیں، اپنے معدنی وسائل، ایٹمی صلاحیت اور افرادی قوت پر اعتماد کر کے اپنے قدموں پرکھڑا ہونے کا فیصلہ کریں، شاید ہمیں دوبارہ یہ موقع نہ