پاکستان کی سیاسی، معاشی، انتظامی و معاشرتی صورتحال کسی بھی صاحب نظر سے مخفی نہیں، ایک طرف تو پاک بھارت سفارتی لڑائی اور جنگی ماحول اپنے عروج پر ہے دوسری طرف نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر پھیلنے والے اسلاموفوبیا کے تناور درخت کے سائے نے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس کے تحت اسلامیت و مغربیت کے مابین جاری کشمکش نے یہاں بھی اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ مغربیت کا فروغ ہو لیکن اس راہ میں مزاحم اسلامی تہذیب کے پاسبان ہیں۔
اس سے زیادہ نازک حالات مسائل کے انبار نے پیدا کر رکھے ہیں جن میں “قانون اپنا اپنا” سب سے منہ زور ہے بظاہر تو سیاسی جماعتوں کے آپسی اختلافات کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے اداروں سے اختلافات نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً اس وقت دو طبقات کی زبردست کشمکش چل رہی ہے جن میں ایک طبقہ عام عوام ہے دوسرا طبقہ اشرافیہ پہ مشتمل ہے یوں اس گھن چکّر نے عوام کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بناکے چھوڑا ہے۔ جس طرح ہمارے وزیراعظم آدھے مہاجر آدھے قائداعظم آدھے پٹھان ہیں اسی طرح عوام بھی ہر لحاظ سے آدھی ہوکر رہ گئی ہے، اکثریت کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے بس عام آدمی کی سوچ بجلی گیس کے بل سے شروع ہوکر آٹا چینی کے ریٹ پر جاکر ٹھہر جاتی ہے۔
ہر چند کہ یہی کہا جاتا آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے ملک تباہ کردیا، نواز لیگ لوٹ گئی، متحدہ نے معاشی حق کا بیڑہ غرق کردیا، کپتان نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ساری سیاسی جماعتیں یرغمال ہیں خواہ سابق حکومتیں ہوں یا موجودہ سب کے آشیانے شاخ نازک پہ قائم ہیں، 2001 کے بعد جہاں تمام عالم اسلام میں امریکی استعماریت اور سرمایہ دارانہ پالیسی پروان چڑھی ہے وہیں پاکستان بھی استعماری طاقتوں کی سرمایہ داروں کے ذریعے اس کی کالونی بن کر رہ گیا ہے۔
جس طرح مشرف دور حکومت میں اور سکے بعد امریکی دھونس دھمکی، مراعات اور پرکشش پیکیجز کے ذریعے پاکستانی سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اس گھناؤنے کھیل کے اہداف بھی اب کسی سے مخفی نہیں، اصل ہدف افواج پاکستان کو کمزور کرکے نہ صرف ایٹمی اثاثے ختم کروانا تھا بلکہ پاکستان کے حصے بکھرے کرنا اصل ہدف تھا جسے افواج پاکستان نےجس بہادری، حوصلے، صبر اور دانشمندی سے ناکام بنایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی،لیکن اس کھیل میں ریاست اور عوام کا کچومر نکل گیا ہے جو اب موجودہ حکومت سے بھی ناامید ہوکر غیبی مدد کی دعا گو ہے۔
عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو شاید ان کی شہرت آج کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن انتخابی سیاست میں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی لیکن جب 2008 کے بعد کپتان نے اصل عوامی مسائل پہ بات کرنا شروع کی تو عوام میں بھی بہت پسند کیا جانے لگے کپتان کو ملنے والی سپورٹ و عوامی حمایت دراصل عمران خان کی ذات کو دیکھ کر نہیں تھی اگر ایسا ہوتا تو بائیس سال پہلے ہی کپتان صاحب وزیراعظم ہوتے بلکہ یہ تو ان کے بدعنوانی، بدانتظامی اور لاقانونیت کے خلاف بیانیے کو دیکھ کر ان کی نیک نیتی کو محسوس کرکے لوگوں نے ان کے قافلے کو جوائن کیا لیکن افسوس کہ اس قافلے کو بھی سرمایہ داروں اور وڈیروں جاگیرداروں نے اچک لیا۔
المیہ دیکھیں دنیائے تاریخ میں یہ نظیر نہیں ملتی کہ کبھی مشکل وقت کے ساتھیوں کو کسی نے چھوڑ دیا ہو لیکن یہ غلطی کپتان سے ہوئی کہ اپنے پرانے ساتھیوں پہ نئے آنے والے سرمایہ داروں کو ترجیح دی اور روایت کے مطابق اس بار بھی بجائے نظریہ و منشور کو اہمیت دیتے ایک بار پھر کپتان کو بڑا بت بناکر پیش کیا جانے لگا ہے جس طرح MQM میں نظریہ و منشور ختم ہوا اور الطاف حسین کو حرف آخر بنالیا گیا، اسی طرح ن لیگ میں نوازشریف جبکہ PPP میں بھٹو خاندان کو خدائی حیثیت حاصل ہے حالانکہ یہ حقیقت سب پہ آشکار ہے کہ جب PPP بنی تو لوگوں نے بھٹو کو نہیں ان کے بیانیے کو چنا تھا۔
دوسری سطح پر کپتان کی تحریک انصاف بھی اب سرمایہ دارانہ جماعت بن کر رہ گئی ہے اور کپتان بھی بےبس نظر آتے ہیں، ن لیگ تو شروع سے ہی سرمایہ داروں کی جماعت تھی جبکہ PPP محترمہ بینظیر کی موت کے بعد زرداری صاحب خود بھی سرمایہ دار بن بیٹھے تو پارٹی بھی سرمایہ داروں کی مرضی و منشاء سے چلتی ہے لیکن مرحوم بینظیر صاحبہ کا یہ کردار رہا ہے کہ وہ کبھی سرمایہ دار نہیں بنیں اور دیکھا جائے تو ہر بار ان کی حکومت سرمایہ داروں سے ٹکرانے کی وجہ سے ہی گئی اس کے علاوہ ایک اور بڑی طاقت بیوروکریسی ہے جس کا ہر فرد زمینی خدا ہے جو قانون کو اپنی مرضی سے چلاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوامی مسلسل عذاب میں مبتلا ہے۔
پاکستان میں اشرافیہ سیاستدانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بیوروکریسی پہ مشتمل ہے اور سب کا آپس میں اتحاد و اتفاق ہے کہ قانون ان کی مرضی و منشاء سے ہی چلنا ہے، کپتان نے ملکی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو موجودہ حکومت کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے سامنے مجبوراً حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور روایتی سسٹم کا حصہ بننا پڑا، کپتان صاحب آج بھی کہتے ہیں کہ وہ نظام ٹھیک کرینگے ان کی ٹیم نے انہیں اصلاحات کے نام پہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے اگرچہ بہت سے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ضرور ہے لیکن مجموعی طور پر قانون خراب نہیں بلکہ قانون پہ عمل کروانے اور کرنے والے خراب ہیں۔
اگر انیل کپور کی فلم کی طرح مجھے ایک دن کے لیے سربراہ ریاست بنایا جاتا تو میں میں اصلاحات کو ثانوی درجے میں رکھتا اور اس ایک دن میں عدالت جاکر بیٹھ جاتا جو سول کیسز ہوتے ان کو صرف حل نہ کرواتا بلکہ سرکاری آفیشلز کو کوتاہی و غفلت برتنے پر سخت سزا بھی دیتا، اگر یہ روایت پڑجائے عدلیہ سچی ہوجائے تو یقیناً چند دنوں میں ملکی نظام درست ہوجائے، اگر سرکاری آفیشلز کو قانون میں غفلت برتنے اور دہرے معیار پر سخت سزائیں دی جائیں، عدلیہ سول کیسز کو بجائے تاریخ پہ تاریخ دینے کے دنوں میں نمٹائے، محض دس کیسز کی بنیاد پہ نہ صرف لاکھوں کیسز عدالتوں سے ختم ہوجائیں گے بلکہ پورے ملک کا نظام ٹھیک ہوجائے گا، لیکن بات وہی ہے کہ کرے گا کون؟؟۔
یہاں تو ECL لسٹ میں شامل ملزم کو جس کمشنر نے رشوت لیکر ملک سے باہر بھجوایا اسے انعام کے طور پر چیف سیکریٹری بلوچستان لگایا جاتا ہے، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف صاحب اگر چاہتے ہیں کہ ملک ٹھیک ہو، عوام کو سکھ کا سانس ملے تو صرف تجرباتی طور پر ہی ایک مہینے کے لیے سول کیسز میں یہ عمل اپنائیں تو پورا نظام ٹھیک ہوجائیگا، کوئی سرکاری افسر کسی بڑے کے کہنے پہ غلط کام نہیں کریگا کیونکہ اسے پتہ ہوگا کہ اسے سزا ملے گی، جب سرکاری اہلکار غلط کام نہیں کرینگے تو نظام ازخود درست ہوجائیگا۔