حکمران چورتوایماندارہم بھی کہاں؟

اس ملک میں ہرگھرعدالت اورہرشخص جج بناپھرتاہے۔قاتل کے ہاتھ پرمقتول کاخون تازہ ہی کیوں نہ ہووہ پھربھی دوسروں کے ہاتھوں پرخون کے داغ دھبے تلاش کرتاپھرتاہے ۔میلوں دوردوسروں کے غیوب توہمیں نظرآجاتے ہیں مگراپنے دامن پرلگے بڑے بڑے داغ ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔دوسروں کے گھروں میں جھانکنے کی توہمیں عادت ہے مگراپنے گریبان میں ایک لمحے کے لیے جھانکناہمیں گوارہ نہیں۔

یہ توہمیں یادہے کہ اس ملک کو کرپٹ اورچورحکمرانوں وسیاستدانوں نے لوٹامگریہ ہمیں یادنہیں کہ اس ملک کی تباہی اوربربادی میں کرپٹ اورچورحکمرانوں وسیاستدانوں سے زیادہ حصہ ہم نے خود ڈالا۔ہمارامطلب ہرگزیہ نہیں کہ اس ملک کوکرپٹ اورچورحکمرانوں وسیاستدانوں نے نہیں لوٹا۔ قائداعظم محمدعلی جناح کے بعداس ملک میں جوبھی حکمران اورسیاستدان برسراقتدارآیااس نے اس ملک کولوٹااوردل کھول کرلوٹالیکن حکمرانوںاورسیاستدانوںکے ساتھ ہم بھی تولوٹ مارمیں ذرہ بھی ان سے کبھی پیچھے نہیں رہے۔

کلمہ طیبہ کے نام پربننے والے اس بدقسمت ملک میں آج تک حکمران، سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، فنکار، گلوکار، کھلاڑی،سرمایہ کار،صنعتکار،تاجراورملاومسٹرسمیت جس کاجتنابھی وس اوربس چلااس نے اپنی بساط اورطاقت کے مطابق اس ملک اورقوم کولوٹااوریہ سلسلہ آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے۔درحقیقت اس ملک میں کیاحکمران،کیاسیاستدان اورکیاعوام ۔۔؟سب ایک ہی کشتی کے سواررہے بس فرق صرف اتنا رہاکہ کسی نے حکمرانوں کی طرح سامنے آکرگھرکولوٹااورکسی نے عوام کی طرح منہ چھپاکراپناحصہ وصول کیا۔

صبح وشام حکمرانوں اورسیاستدانوں کوچورڈاکوکہہ کران پرلعنت بھیجنے والے یہ عوامی چوراورڈاکو کیادودھ کے اتنے دھلے ہوئے ہیں ۔۔؟نہیں نہیں۔ان کے کرتوت تودیکھ کروہ کرپٹ اورچورحکمران وسیاستدان بھی پھر فرشتے لگنے لگتے ہیں ۔ حکمرانوں اورسیاستدانوں سے کوئی چیزمحفوظ ہویانہ ۔۔؟لیکن ہم عوام سے اس دھرتی پرکوئی شئے محفوظ نہیں ۔ہمارے جیسے دغاباز،جھوٹے،مکاراورچورانسانوں کودیکھ کریقینناًانسان بھی شرماتاہوگا۔ہم تووہ انسان ہیں جن سے آج اس دھرتی پروحشی درندے اورجانورکیا۔۔؟ہمارے جیسے اپنے انسان بھی نہ صرف کترارہے ہیں بلکہ ہمارے وجودسے وہ عجیب قسم کاخوف اوربدبوبھی محسوس کررہے ہیں ۔

چنددن پہلے ایک جنازے پرگائوں جاناہواتوخالہ زادبھائی مولانامحمدخالدقاسمی جووہاں ایک مقامی مسجدکے امام وخطیب بھی ہیںسے ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں گائوں کی آبادی سے دورایک صحراکی طرف لیکرگئے۔ہم نے آبادی سے دورجانے کی وجہ پوچھی توکہنے لگے جوزوی صاحب ۔آبادی میں دل کچھ بھاری بھاری ہوتاہے۔لوگ ایک دوسرے کاگوشت نوچ کرٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں ۔شب وروزکی وعظ ونصیحتوں کابھی اب ان پرکوئی اثرنہیں ہورہا۔ان کے کرتوت دیکھ کرایک خوف ساآنے لگتاہے جس کی وجہ سے دل چاہتاہے کہ ایسے ہی صحرائوں اوربیابانوں میں رب کی حمدوثناء بیان کرتے پھروں۔پھرکافی ٹائم تک ہم اس صحرامیں رہے ۔

حکمران اورسیاستدان توتھے ہی چوراورڈاکو۔لیکن ہم جس راستے اورڈگرپرچل پڑے ہیں یہ توخطرناک بہت ہی خطرناک ہے۔اللہ جوبہت بڑارحیم وکریم ہے ،اس رب نے فرمایا کہ اپناحق تومیں معاف کردوں گالیکن لوگوں کے حقوق۔۔؟وہ لوگ جانیں اورتم ۔مطلب حقوق العبادکی کوئی معافی نہیں۔بروزقیامت جب تک وہ انسان جس کادنیامیں حق ماراگیاتھاوہ خودحق پرڈاکہ ڈالنے والے کومعاف نہیں کرتااس وقت تک اس کاحق معاف نہیں ہوگا۔اس اٹل حقیقت کوجاننے اورسمجھنے کے باوجودہم انسان آج جس طرح دوسروں کے حقوق پرشب خون مارنے میں لگے ہوئے ہیں وہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔دنیاکمانے اوردوسروں کاحق مارنے کے لئے آج ہم پہروپیئے بن چکے ہیں ۔جس روپ میں انسان کاحق مارناآسان ہوہم فوری طورپروہ روپ دھارلیتے ہیں ۔

سیاست اورسیاہ ست کیا۔۔؟اب تومذہب کے نام پرلوگوں کولوٹنابھی ہم نے اپنا معمول بنالیاہے۔ہاتھ میں تسبیح،چہرے پرنبی ﷺ کی سنت اوردل میں ملک وقوم کولوٹنے کی تدبیریں کیااس سے بڑاظلم اورگناہ بھی کوئی اورہوگا۔۔؟لوگ جس طرح پرندوں کے شکارکے لیے جال میں دانہ ڈالتے ہیں اسی طرح آج ہم حج،عمرہ،روزہ،نماز،تسبیح،داڑھی اورتبلیغ کو دانے کے طورپراستعمال کررہے ہیں پہلے لوگ حج،عمرہ،روزہ،نماز،تسبیح،داڑھی اوردعوت وتبلیغ کواہم فریضہ سمجھ کراللہ کی رضا اورآخرت کی کامیابی کے لیے اداکرتے تھے مگرآج۔۔؟آج ہم ان اہم دینی فرائض کوبھی انسانوں کے لوٹنے کے لیے بروئے کارلارہے ہیں ۔

ہمیں پتہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے ہاتھ میں تسبیح اورپیشانی پرکالے محراب دیکھ کران کی طرف پھردوڑتے چلے آتے ہیں ۔اسی وجہ سے اب ہاتھوں میں تسبیح اورچہروں پرنبیﷺ کی سنت ہم نے سجالی ہے کہ لوگ ہماری طرف دوڑتے آئیں اورہم انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے جائیں ۔دنیاکے نام پردنیاکمانابھی جرم اورگناہ ہوگامگردین کے نام پرلوگوں کوگمراہ اوربیوقوف بناکردنیاکمانااس سے کہیں زیادہ بڑاجرم اورگناہ ہے۔جولوگ مذہب کے لبادے میں لوگوں کوبیوقوف بناکرلوٹتے ہیں ایسے لوگ دنیااورآخرت دونوں میں واقعی کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ نماز،حج،روزہ،زکوٰۃ ہم مسلمانوں پرفرض اورداڑھی،پگڑی اوراسلام کی تبلیغ عام کرنایہ بلاشک وشبہ نبی پاکﷺکی سنت ہے لیکن اس سوچ اورنظریے کے تحت ان فرائض اورسنتوں پرعمل کرناکہ اس طریقے سے ہم دنیااوراہل دنیاکو بڑے مومن اورپاک صاف دکھائی دے کرپھرآسانی کے ساتھ دھرلیں گے یالوٹ لیں گے توپھران اعمال کایقیناًہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

دینی اعمال اللہ کی رضا ،نبی پاکؐ کی خوشنودی اورآخرت کی کامیابی کے لیے اداکیے جاتے ہیں ۔ہم میں سے جولوگ حج،عمرہ،نماز،تسبیح اورتبلیغی چلے کواپنے مذموم مقاصدکے لیے ڈھال بناناچاہتے ہیں ایسے لوگ آخرت کی فکرکریں یاپھرایک سخت انجام کے لیے تیاررہیں ۔کسی حج،عمرے،نماز،روزے،تسبیح اورچلے سے لوگوں کے حقوق کبھی بھی معاف نہیں ہوں گے۔

آج ہم لوگوں نے وطیرہ بنایاہواہے ۔ایک طرف کسی غریب،مجبوراورمظلوم کاحق ماردیتے ہیں اوردوسری طرف اسی غریب،مجبوراورمظلوم کے حق سے پھرایک حج،عمرہ یاایک چلہ لگاکریہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے آخرت کے لیے کہیں بڑاتیرمارلیا۔حرام کی کمائی اورغیروں کے حقوق ہڑپ کرنے پرنہ کوئی حج قبول ہوگانہ کوئی عمرہ اورنہ ہی کوئی اورعبادت۔ نماز،حج،روزہ،زکوٰۃ جیسی دینی فرائض اورعبادات کی ادائیگی کے لیے تن اورمن کے ساتھ مال اوررزق کاپاک ہونابھی ضروری ہے۔سیاست اورمذہب کے لبادے میں غریبوں،مجبوروں اورمظلوموں کولوٹ کرآخرکب تک ہم اپنے آپ کوبیوقوف بناتے رہیں گے۔نمازی ،حاجی اورتبلیغی کے نام پرکسی کولوٹنایہ کوئی کمال نہیں بلکہ یہ دنیااورآخرت دونوں کاایک ایسا وبال اورملال ہے جوپھرآخروی زندگی میں بھی آخرتک باقی رہے گا۔

آخرکب تک ہم حکمرانوں اورسیاستدانوں کوبرابھلاکہہ کراورگالیاں دے کراپنے جرائم اورگناہوں پرپردے ڈالتے رہیں گے۔کرپٹ،چورحکمرانوں وسیاستدانوں اوراس دیمک زدہ معاشرے کوٹھیک کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کرخودکوٹھیک کرناہوگاورنہ زبان پرلاالہ اوردل میں اس کالی بلاسے ہمارے یہ حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہونگے۔ہمیں اس ملک وقوم کی تقدیربدلنے کے لیے پہلے اپنے ان اعمال،افعال اورکردارکوبدلناہوگاجس دن ہم راہ راست پرآکربدل گئے اس دن یہ سارے بدسے بدتر حالات بھی پھرخودبخودبدل جائیں گے۔اب گیندکسی چوراورڈاکوحکمران وسیاستدان کے پاس نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ۔اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہم کامیابی اورتباہی میں سے کس کاانتخاب کرتے ہیں ۔۔؟

جواب چھوڑ دیں