زمانے کے انداز بدلے گئے

سب سے پہلے کراچی والوں کیلیے دو تہوار ایک ساتھ جلوا گر ہو چکے ہیں جس کیلیے مبارکباد۔ ایک طرف پندرھواں کراچی بین الاقوامی کتب میلہ ایکسپو سینٹر ۵ دسمبر سے۹ دسمبر تک جاری ہے تو دوسری طرف بارہویں بین الاقوامی اردو کانفرنس آرٹس کونسل میں۵ دسمبر سے ۸ دسمبر تک ادب کے رنگ اور خوشبو بکھیر رہی ہے ۔ ادب سے محبت کرنے والوں کیلیے بڑی تقویت کی بات ہے کہ کراچی میں کسی حد تک ادبی روایات نے دوبارہ سانس لینا شروع کیا ہے اور امید افزا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر ایسے اقدامات کی بدولت قابو پالیا جائے گا (انشاء اللہ) ۔

موقع کی مناسبت سے ارباب اختیار سے یہ درخواست (جو اس سے پیشتر بھی کی جاچکی ہے) ایک با ر پھر دہراتے چلیں کہ کراچی کو اب ایک سے زیادہ آرٹس کونسل کی ضرورت ہے ، ادب اور ادیب کی صحیح سمت میں پرورش کرنی ہے تو کچھ نہیں تو ضلعی سطح پر آرٹس کونسل کی شاخیں بنائی جائیں اوراس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ہر قسم کی اجارہ داری کا قلع قمع کیا جائے ۔ڈاکٹر اقبال کی شاعری بھی ہر دور کیلیے ہے جیسے کہ عنوان میں لکھے مصرعے کو لے لیجئے ، زمانے کے انداز بدلے گئے ; اب جیسے یہ اسی زمانے کیلیے ہو ۔

ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے یعنی انسان اپنی سہولت کیمطابق ایجادات کرتا چلا جارہا ہے ہر دور اپنی ضروریات پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی طلب کو بڑھانے کے اسباب بناتا ہے ۔ ایک ذی روح اپنی پہلی سانس سے آخری سانس تک مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے ، یہ وہ قدرتی عمل ہے جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ جنہوں نے اس عمل میں اپنی کارستانیا ں دیکھانے کی کوشش کی انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ ہم اس عمل کو یکساں عمل بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ جو قدرتی ہے اس میں تبدیلی کاکوئی سوال ہی نہیں (سوائے قدرت کی منشاء کہ) ۔

اب جب مسلسل تبدیلی انسان کی زندگی سے منسلک کردی گئی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اندر آنے والی تبدیلی اپنے باہر بھی تبدیلی کیلیے کچھ نا کچھ عملی طور پر دیکھنا چاہے گی ۔ جس کیلیے ساری دنیا تگ و دو میں لگی ہوئی ہے ۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتا جاتا ہے اور ماحول کوتبدیل کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے ۔وقت، حالا ت اور رونما ہونے والے واقعات ان تمام رازوں سے پردے اٹھا رہے ہیں جو کچھ عرصے قبل تک راز رہے ۔

سماجی میڈیا سے قبل اٹھنے والے رازوں تک رسائی آسان نہیں تھی، اب نا چاہتے ہوئے بھی سماجی میڈیا کو اس بات کا سہرا سجانا پڑے گا کہ اس نے رازوں تک رسائی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن کیا سماجی میڈیا نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی کسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمیشہ سے ایک بات سامعین کے گوش گزار ہوتی رہی ہے کہ بدلاؤ اپنے اندر سے آتا ہے یعنی ہم کسی کام کیلیے دوسرے کو اسوقت تک کہنے کا جواز نہیں رکھتے جب تک کہ ہم خود اسکا عملی مظاہرہ نا کرلیں اور اپنے آپ میں بدلاؤ نہیں لائیں ۔

ہمارے نبی ﷺ کی سنت بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ کسی بچے کو بھی اگرکسی بات سے منع کرتے ہو تو پہلے اس بات کو یقینی بنا لو کہ وہ بات یا عمل آپ بھی تو نہیں کرتے اور اگر کرتے ہو تو پہلے اسے خود ترک کرو ۔ بدلاؤ یا تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے لوگ پیدا ہورہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں ۔ نئے رشتے بن رہے ہیں پرانے پرانے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ سرحدوں کی پاسداری کیلیے مختلف قسم کے اقدامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ آج ہر کوئی کسی کی سرحد میں داخل ہونا چاہتا ہے ۔

بد عنوانی کیخلاف چودہ سو سال پہلے سب سے بڑی مہم چلائی گئی تھی اور ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی تھی کہ کلمہ حق پڑھنے والے بدعنوانی چھوڑ کر حق کی جستجو میں شریک ہوگئے تھے اور جنہیں اپنی بدعنوانی سے پیار تھا وہ اسکے دفاع کیلیے برسر پیکار ہوگئے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جنہوں نے صفر سے ترقی کی انہوں نے پہلے دن سے بدعنوانی کو اپنے نظام سے خارج رکھا اور بدعنوان قرار پانے والے کیلیے انتہائی عبرت ناک سزاؤں کا تعین کیا اور عملی طور پر بدعنوانی کرنے والوں پر عملی مظاہرہ بھی کر کے دیکھایا جس کے بعد بدعنوانی ناہونے کے برابر رہ گئی اور ملکوں نے ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرلیں ۔

بطور قوم ہمیں کس تبدیلی کی ضرورت ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پوری قوم یک زبان ہوکر یہی دے گی کہ ہمیں بدعنوانی سے نجات مل جائے تو ہم ترقی کی منزل کی جانب پیشقدمی شروع کردینگے ۔ جسکے لیے سب سے پہلے ہمیں انفرادی اقدامات کرنے پڑینگے جس کا مثبت تاثر ہمارے دیگر اہل خانہ پر پڑے گا جیسے کہ ٹریفک کے اشارے لال بتی پر رکنا اور ہری بتی پر چلنا ہے ، اپنے سے بڑوں کوجہاں کہیں ممکن ہو راستہ دینا ہے، کسی بھی قطار والی جگہ پر قطار میں لگنا ہے اور اپنی باری کا انتظار صبر و تحمل سے کرنا ہے (دیکھا یہ گیا ہے کہ ہماری بدعنوانی کی ایک وجہ ہماری بیوجہ کی جلدبازی بھی ہے) ۔

ہمارے ملک میں تعلیم بطور سیاسی منشور تو ہر سیاسی جماعت کیساتھ رہا ہے لیکن کبھی کسی نے تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جسکی اس قوم کو ضرورت تھی، اور اگر تعلیم کی تقسیم کی بات کریں تو ہمیں دیکھائی دیتا ہے کہ تعلیم کو وہاں پہنچادیا گیا کہ جہاں تک ایک مخصوص طبقے کی رسائی ہو اور عام آدمی تو ویسے ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلا نے سے باز رکھنے پر مجبور ہوتا دیکھائی دے رہاہے ۔ ہم پاکستانی اس دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے بدعنوانی کے خاتمے کا سورج طلوع ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ ہر وہ فرد جو کسی نا کسی طرح سے بدعنوانی میں ملوث ہے قانون کی گرفت میں آتا جا رہا ہے اور باقی اس خوف سے کہ اتنی ساری دولت لوٹانی پڑسکتی ہے ملک چھوڑ کر فرار ہونے کے ہر ممکن راستے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وقت کے منتظر ہیں ۔

ایک طبقہ زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کو ماضی کی تبدیلی سرکاروں سے مشابہہ قرار دے رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ کچھ وقت گزر جانے دو(جو کہ حکومت کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے کہہ رہے ہیں )یہ بھی اسی ڈھب پر چلتے دیکھائی دینگے، یہ طبقہ ملک میں مایوسی پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔ مصنوعی بحرانوں کو پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن کوئی تو وجہ ہے کہ معاملات ملک کے استحکام کی طرف جا رہے ہیں ۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہورہی ہے کہ اگر خلوص دل و نیت سے اچھائی کیلئے کام کیا جائے۔

الغرض اس کے نتائج کیا نکلیں گے ، نتائج اچھے ہی نکلتے ہیں اور جیسا کہ حالات ،و اقعات اس بات کی گواہی دیتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔ دیواروں سے سر مارنے والے اپنے سروں کو لہولہان کرنے کے سوا اور کیا کررہے ہیں ۔ آج مدینہ کی ریاست کی بات کرنے والا کوئی جسمانی ساخت کا مولوی نہیں بلکہ من کا مولوی ہے ۔ پاکستان بس اب ایک اور کن کا محتاج ہے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں