یہ 92ء کی بات ہے جب اپنے ماموں کی شادی کی وجہ سے ننھیال میں چند دن رکنا پڑا۔ ساتویں کلاس کی طالبہ تھی، سو گھر والوں کے بقول نہ تو اتنی چھوٹی کہ گھر سے باہر بچوں کے ساتھ کھیل کود کر سکوں اور نہ اتنی بڑی تھی کہ خاندان کی خواتین کے درمیان ہوتی کہ گفتگو میں حصہ لے سکوں۔ چنانچہ اسٹور میں سے کچھ پرانی کتابوں کو ڈھوڈھنے کا منصوبہ بنایا اور نسیم حجازی کا ناول” یوسف بن تاشفین” ہاتھ لگا۔ میں نہ تو مصنف سے واقف تھی، نہ اس نام کے کسی ملک سے۔ کچھ صفحات پر لکھے حاشیوں سے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی تخیلاتی کہانی نہیں بلکہ تاریخ کی اک سچائی ہے۔
مجھے اندلس سے عشق ہو گیا۔ میں کوئی بہت ہی نیک اور اسلام پسند بچی نہیں تھی، نہ ہی گھر میں کچھ ایسا ماحول تھا ، لیکن یہ بات میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی کہ یورپ میں ایک ایسا ملک بھی تھا جو کبھی ہمارا تھا۔ اس کے بعد میں جہاں کہیں اسپین لکھا دیکھتی اسے کاٹ کر اس پر اندلس لکھ دیتی۔ اس ملک کی تاریخ پڑھنا اچھا لگتا۔ اسکے قصوں میں لگتا کہ شائد میں انہی کا ایک حصہ ہوں۔ لیکن مجھے اندلس کی تاریخ کے صرف اس باب نے اپنا اسیر رکھا جو دورِ عروج تھا۔ جب یورپ زمانہ تاریکی سے گزر رہا تھا، جب وہاں سے لوگ اپنے پادریوں سے چھپ کر اندلس کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے تھے، جب ساکنانِ یورپ اہلِ اندلس پر رشک کیا کرتے تھے۔ جب قرطبہ عروس البلاد تھا۔
میں نے “شاہین”، “کلیسا اور آگ” یا “آندھیری رات کے مسافر” کبھی نہیں پڑھی، کیونکہ ان میں وہ اندلس نہیں جس سے مجھے عشق تھا، وہ مجاہد نہیں جو فتحیاب ہو کر گھروں کو لوٹے تھے اور جن کے خون اور پسینے نے اس چمن کو کچھ اور صدیوں تک مہکار دیا تھا۔ میں جب پڑھنا چاہتی میرا دل پھٹنے لگتا۔ ایک ناقابل بیاں اذیت میرے وجود میں بھر جاتی اور میں پھر “یوسف بن تاشفین” لیکر بیٹھ جاتی اور ان رزمگاہوں کے تصور میں کھو جاتی جہاں مجاہدینِ اسلام سرخرو لوٹے تھے۔
مگر اب وہ بچپن گزر گیا، اب ہمارے بچوں کا دور ہے۔ انکے مستقبل کے بارے اندیشوں نے میری سوچ کے زاویوں کو بدل دیا ہے۔ اب میں اپنے وطن پاکستان کے موجودہ حالات کا تقابل اہلِ اندلس کے زوال سے کرتی ہوں تو کانپ جاتی ہوں۔ ایک ملک کے کئ ٹکڑے، ایک ملک اور کئ حکمران، ملوک لطوائف کی طرح کا طرزِ حکمرانی۔ ایک اندلس تھا مگر اس پر کئ خاندان قابض تھے، ہر علاقے میں الگ حکومت تھی۔ آج پاکستان پر بھی تو کئ خاندانوں کا قبضہ ہے، ہر صوبے کی حکومت الگ ہے۔ ہر ایک کے اپنے مفاد ہیں۔
وہ حکمران بھی اپنی عیاشیوں کے لیے عوام کی ہڈیاں نچوڑ لیتے تھے، آج ہمارے حکمران بھی اپنے اللّے تللّے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر پورے کرتے ہیں، وہ بھی نصرانیوں کے باجگزار تھے، یہ بھی آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ وہ بھی اپنے عوام کی خون پسینے کی کمائی، اپنا اقتدار طویل کرنے کی خاطر خراج میں خرچ کر دیتے تھے،یہ بھی ادھر سے لوٹتے ہیں اور اغیار کے ملکوں میں بینکوں کی نظر کر دیتے ہیں۔نہ ہمیں کچھ نصیب ہونے دیتے ہیں نہ کچھ اپنے نصیب میں ہے۔ بس اپنی قبریں بھاری کرنے میں مصروف ہیں۔
اس زمانے کا اندلس بھی شعر و موسیقی اور فنونِ لطیفہ کا دلدادہ تھا اور ہمارے یہاں بھی اسٹارز کی بکرا منڈی ہے، جو فن کے نام پر اس قوم کی اخلاقیات کا کافی حد تک جنازہ نکال چکی ہے۔ بس ایک فرق جو مجھے لگتا ہے وہ یہ تھا کہ جب انکو محسوس ہوا کہ پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے تو انہوں نے ایک رہنما کو ڈھونڈا اور اسکا ساتھ دیا، معتمد جیسے عیش کوش نے بھی یہ تاریخی جملہ کہا کہ” میں یوسف کے خچر چرانے کو فرڈینینڈ کے سوّر چرانے سے بہتر سمجھتا ہوں۔” اور چند صدیوں بعد جب انکے پاس کوئی لیڈر نہ تھا وہ تب بھی لڑے، چاہے کامیاب نہ ہوا۔ اور تاریخ کا یہ سنہرا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
آج ہم میں سے کوئی نہیں لڑ رہا، ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ ملک ہمارے اسلاف نے اسلام کے نام پر بنایا تھا اسے کبھی کچھ نہیں ہو گا، خدا کرے یہ ملک تاابد قائم رہے لیکن کہتے ہیں کہ فتحِ اندلس کی رات طارق بن زیاد نے تاجدارِ دو جہاں نبی آخرالزمان کو خواب میں اندلس میں داخل ہوتے دیکھا اور اسے فتح کا یقین ہو گیا۔ اندلس تو آٹھ سو سال اسلام کا مرکز رہا، ہم تو آج ستر سال بعد ہی ان حالات سے گزر رہے ہیں اور بڑی بے فکری اور دیدہ دلیری سے گزر رہے ہیں ۔ ابھی تو ہمارے دامن میں کوئی ایک بھی ایسا ہیرا نہیں جو آنے والی نسلوں کو ہمارے عشق میں مبتلا کر سکے۔ اللّہ ہم سب پر اپنا رحم اور کرم کرے اور ہمیں عقل و فہم عطا کرے۔