ہیرا شہر قائد کا

نعمت اللہ خان ۔ اللہ نے انھیں خدمت خلق کےلیے پیدا کیا تھا۔ خانہ کعبہ،  مسجد نبوی ، اور کراچی میں تین بار رکنیت کا حلف اٹھایا۔

 

صبح سویرے  ناظم آباد کے گھر کے کشادہ کمرے میں بہت سی کرسیاں پڑی تھیں۔ بچے کھیل رہے تھے، اور خان صاحب  ایک کرسی پر بیٹھے  آنے والوں سے مل رہے تھے۔ نہ کوئی روائیتی  ڈرائینگ روم ، نہ کوئی  اور آرائشی  اہتمام ،کوئی اپنے علاقے کا کوئی مسئلہ لیے کھڑا تھا، اور کوئی جماعت کا کوئی کام  لے کر آیا ہوا تھا، نعمت اللہ خان صاحب کی یہ بیٹھک صبح شام کراچی میں یونہی کھلی رہتی تھی۔ کراچی  میں قتل وغارت گری کا طوفان برپا تھا۔ لیکن فقیر کا ڈیرہ  مرائج خلائق عام  یونہی کھلا تھا، نہ کوئی چوکی ، نہ پہرہ ، خان صاحب کی ہمت قابل دید تھی، وہ ان تھک کام کرتے، ان کی ڈیوٹی دینے والے رینجر اہلکار ، اکثر کہتے تھے کہ ہم تھک جاتے ہیں، لیکن خان صاحب کی رات دن کی مصروفیت  کے باوجود وہ کبھی تھکے  نظر نہ آئے۔

 اللہ نے انھیں خدمت خلق کے لیے پیدا کیا تھا، اور وہ ہمیشہ خلق کی بھلائی اور لوگوں کی مدد کے کام کرتے رہے۔ اللہ نے شائد انھیں انہی کاموں کے لیے چنا تھا۔ آج جماعت اسلامی کی الخدمت  ایک شان وشوکت کا اظہار ہے،امدادی کاموں کا دائرہ کروڑوں تک پھیلا ہوا ہے، دنیا الخدمت کی امانت اور دیانت کی معترف ہے۔بجٹ اربوں روپے کا ہے۔ بہت سے ملکوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مسلمانوں کی امداد کے لیے الخدمت کمر بستہ رہتی ہے۔یتیم اور بیواؤں کی امداد و پرورش میں بھی اس کا نام بہت آگے ہے۔

لیکن یہ الخدمت  کا کام کیسے منظم ہوا؟ یہ بھی اس مرد درویش نعمت اللہ خان ہی کا لگایا ہوا پودا ہے۔ جو آج برگ و بار لا رہا ہے۔ اس  الخدمت کی  ابتداء  اور اس کے کام کیوں شروع ہوئے؟ یہ کہا نی نعمت اللہ خان صاحب ہی کی زبانی سنیئے۔، اجتماعی ماحول سے وابستگی اپنے پسندیدہ کام خدمت خلق کی مصروفیات انجام دینے کے لیے زیادہ ساز ثابت ہوئی۔ لیگل پریکٹس کے دوران بھی یہ سلسلہ قدرے ڈھیلے ڈھالے انداز سے جاری تھا۔ تین چار احباب میرے ساتھ اس کام میں شامل ہوئے۔ کلائنٹس کو بھی آمادہ کرتا حصہ شامل کرو۔ دیکھتا مختلف ضرورت مند جماعت کے افراد سے رابطہ کرتے۔ ڈاکٹر اطہر قریشی سے کہا آپ کے پاس شادی بیاہ اور امداد کے سلسلے میں درخواستیں آتی ہیں یہ مجھے دے دیا کریں۔ انکوائری کر کے سامان پہنچانے سمیت دیگر ذمہ داریاں میرے سپرد کریں۔ وہ بخوشی آمادہ ہو گئے دیکھا دیکھی اہلیہ کی طبعیت بھی ان کاموں کی جانب مائل ہو گئی۔ کاموںمیں ہاتھ بٹانا، امدادی سامان پیک کرنا سلیقے سے رکھنا از خود اپنے ذمہ لے لیا۔ یہ سلسلہ مختصر عرصے میں ایسا مستحکم ہوا کہ جماعت کہ دیگر پروگرامز کے مقابلے میں خلق خدا کی خدمت پر مبنی کام طبعیت کو بھانے لگے۔ نارتھ ناظم آباد تنظیمی تقسیم کے اعتبار سے علاقہ کہلاتا تھا۔ ڈاکٹر اطہر قریشی نے نوٹ کیا رفاعی سرگرمیوں کی جانب جھکاﺅ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے، تو مجھے خدمت خلق کا علاقائی انچارج بنا دیا اس وقت شعبہ خدمت خلق کے تحت اجتماعی سرگرمیوں اور پروجیکٹس کا تصور نہیں تھا، شادی بیاہ اور انفرادی امداد ہی کل مصروفیت تھی۔ درخواستیں آئی انہیں پڑھ کر مختلف ذرائع سے تصدیق کرتا خود بھی  معلومات کرتا۔ احوال کا جائزہ  لینے  اوراطمینان کرنے کے بعد ممکنہ امداد فراہمی کرتے۔ ایسی ہی  مصروفیت میں نیو کراچی کے ایک گھرانے کی جانب سے شادی کے لیے امداد کی درخواست موصول ہوئی۔ تحقیق کے لیے ان کے گھر پہنچا تو عالم یہ تھا بٹھانے کے لیے ایک چارپائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گفتگو کے دوران پتا چلا اگلے دن شادی ہے اور بچی کے سر پر رکھنے کے لیے ایک دوپٹہ تک نہیں ہے۔ دل لرز کر رہ گیا۔ کچھ سامان تو ساتھ لے کر گئے تھے وہ حوالے کیا۔ شادی کا جوڑا، اسٹیل چینی کے برتن، روزمرہ ضروریات کی کچھ چیزیں 500 روپے نقد دے کر جب میں واپس لوٹ رہا تھا، خیال آیا معاشرے میں اس قدر محرومی، کوئی ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ جس سے ضرورت مند بہتر انداز میں استفادہ کریں۔

حکیم صادق صاحب امیر کراچی تھے انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کا باقاعدہ شعبہ خدمت خلق قائم کر دیا۔ سرگرمیوں کی نوعیت اور وسیع ہو گئی طلبہ کو وظائف، فیس کا انتظام سمیت دیگر مدات بھی شامل ہو گئیں۔

کتب کا مطالعہ، اجتماعات میں شرکت، تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو ممکنہ حد تک بہتر انداز میں انجام دینے کی کوشش میں مصروف دیکھ کر نزدیکی ساتھیوں اور ذمہ داران نے خیال ظاہر کیا  کہ مجھے جماعت اسلامی کا رکن بننا چاہیے، میں اپنے اندر اس بھاری پتھر کو چومنے کا حوصلہ نہیں پارہا تھا۔ پروفیسر غفور احمد امیر جماعت کراچی تھے اور اور رابطہ عالم اسلامی کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں سعودی عرب گئے ہوئے تھے ،ان کی غیرموجودگی میں حکیم صادق حسین امیر جماعت تھے۔ یہ 74ءکازمانہ تھا۔ میرا بھی اہلیہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کا ارادہ  بن گیا۔ روانگی سے قبل حکیم صادق صاحب تشریف لائے  اور کہا کہ آپ  رکنیت کا فارم پر کر دیں۔ میں  رکنیت فارم حج پر اپنے ساتھ ہی لے جاتا ہوں۔ بھر کر واپس لے آﺅں گا  ۔میں نے انہیں جواب دیا تو کہنے لگے۔ میں منور حسن (اس وقت قیم کراچی تھے) کے ہاتھ دو فارم آپ کو بھجوادوں گا۔ ایک بھر کر یہیں چھوڑ جائیے گا۔ دوسرا اپنے ساتھ لے جائیں۔ جب وہ واپس لے کر آئیں گے تویہ والا فارم پھاڑ دیں گے یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ شام کو سید منور حسن گھر تشریف لائے دیکھا تو ہاتھ میں ایک ہی رکنیت کا فارم، دوسرے کے متعلق پوچھا، مجھے تو ایک ہی دے کر بھیجا ہے، ٹھیک ہے یہی دے دیجیے، میں وہ فارم اپنے ساتھ سعودی عرب لے گیا۔ لیکن کسی وجہ سے بھر نہیں سکا، حج کے دوران پتا چلا پروفیسر غفور احمد منی میں ٹھیرے ہوئے ہیں، اگلے دن ملاقات ہوئی، کہنے لگے…. تیار ہیں۔ کل خانہ کعبہ میں رکنیت کا حلف لوں گا، حسب پروگرام  وہاں پہنچ تو گیا پتا چلا کہ غفور صاحب ایک میٹنگ میں مصروف ہو گئے ہیں۔

 میرے ساتھ ہفت روزہ تکبیر کراچی کے مدیر صلاح الدین شہید اور گھر کے ایک پڑوسی موجود تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی پروفیسر صاحب نے حلف لینے کا ضرور کہا ہے اب وہ موجود نہیں ہیں، تو کوئی ذمہ دار فرد یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ وہاں رحیم یار خان کے امیر جماعت موجود تھے، انہوں نے حلف لیا۔ دن گزر گیا۔ زیارت کے لیے مدینہ منورہ پہنچا تو راستے میں صفدر چوہدری مل گئے۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگے پروفیسر غفور احمد صاحب تو فلاں ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ پہلے تو لرزتے کانپتے روضہ رسول پر حاضری دی۔ خدمت میں سلام پیش کیا اور لوٹ آیا۔ سیدھا پروفیسر غفور احمد جس ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے وہاں جا پہنچا۔ انہیں علم نہیں تھا میں حلف یافتہ ہو چکا ہوں۔ کہنے لگے کل مسجد نبوی میں آپ کا حلف لوں گا۔ جی ضرور میں نے پھر حامی بھر لی، اگلے دن طے شدہ وقت پر پہنچ گیا۔  پروفیسر غفور احمد  ،نےمسجد کے صحن میں حلف لیا۔ حج بھی ادا ہو گیا تھا اور دو مرتبہ رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستان واپسی کا قصد کیا۔ اہلیہ نے توجہ دلائی آپ کی شیو بڑھ گئی ہے۔ بنوالیں تو مناسب رہے گا ۔یہ قصہ  اب پراناہو گیا۔ اب انشاءاللہ داڑھی رکھوں گا۔ انہیں فیصلہ سنایا، اہلیہ کہنے لگی. مجھے تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا جب ہم اپنے سفر کا آغاز کر رہے تھے۔ اور آپ نے دیگر سامان کے ساتھ شیونگ کٹ رکھنے کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔ ورنہ اس سے پہلے کسی بھی سفر میں جاتے تو لازماً کہتے۔

 کراچی پہنچا تو جماعت اسلامی نارتھ ناظم آباد کے ذمہ داران کو خیال آیا موصوف تو ہمارے علاقے کی حدود میں رہتے ہیں، اس ناطے حلف برداری تو یہیں ہونی چاہیے۔ انہیں بھی میرے دومرتبہ حلف اٹھانے کے متعلق علم نہیں تھا۔ متین علی خان ناظم علاقہ تھے، تیسری مرتبہ حلف لینے کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی میری رکنیت پر مہر ثبت کر دی گئی، کہ خالصتاً علاقے کا رکن ہوں۔ اورنگی اسپتال کے قیام  کے بارے میں نعمت اللہ خان  بتاتے ہیں۔ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں بھرپور مہارت رکھنے کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ انہی کے مشوروں اور باہم تبادلہ خیال کے بعد یہ بات ذہن میں واضح ہو گئی کہ تنظیم میں وسعت، عوام میں پذیرائی کے لیے کارکنان کی تربیت کے ساتھ خدمت خلق کو بطور خاص اپنا ہدف بنانا چاہیے۔

کراچی کے مڈل کلاس عوام جو ایک جانب خودار ہیں اور اپنوں کے ستائے ہوئے ہیں، ان کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے منصوبوں کا آغاز ہونا چاہیے جو زندگی کے سفرمیں مددگار بن سکیں۔ ابتدا میں معمول کے پروگراموں کے علاوہ رفقا کے مشورے سے صحت کے حوالے سے کچھ منصوبے شروع کرنے کے بارے میں طے کیا۔ راستے آپ سے آپ بنتے چلے گئے۔ 1971ءمیں مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بن جانے کے بعد بہت سارے افراد ہجرت کر کے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاﺅن میں بس گئے۔ اس وقت تک جماعت اسلامی شعبہ خدمت خلق کے نام سے رفاعی سرگرمیاں انجام دیتی تھیں۔ انچارج غالباً ڈاکٹر عبدالمجید تھے۔ یہ جنرل سرجن تھے۔ دیگر بانی اراکین میں پروفیسر نور الہٰی، ڈاکٹر اقبال غیور، ڈاکٹر افتخار کے علاوہ کچھ اور ساتھی شامل تھے۔ یہ بات مشاہدے میں تھی کہ اورنگی ٹاﺅن میں سفید پوش طبقے کے لیے صحت کے حوالے سے کوئی انتظام نہیں تھا۔ معمولی سی بات پر انہیں طویل سفر کر کے عباسی شہید اسپتال، سول اسپتال یا جناح اسپتال آنا پڑتا تھا۔

 اس لیے 1974ءمیں ایک ایکڑ کے لگ بھگ رقبے کا پلاٹ خریدا گیا۔ ارادہ تھا کہ یہاں پر 200 بسترں کا اسپتال تعمیر کیا جائے۔ لیکن وسائل نہیں تھے۔ اب کیا کیا جائے؟ راہ اس طرح آسان ہوئی کہ شعبہ خدمت خلق کے انچارج ڈاکٹر عبدالمجید ڈاﺅ میڈیکل کالج میں لیکچرار کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ان کا ایک شاگرد سعودی عرب میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے اسپتال کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے سعودی حکمران شاہ خالد سے ملاقات کروانے کا وعدہ کیا اور وفد کی شکل میں سعودی عرب آنے کا مشورہ دیا۔ میں ڈاکٹر عبدالمجید اور چند افراد سعودی عرب پہنچے۔ لیکن افسوس ہمارے پہنچنے سے قبل شاہ خالد کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک طرف جہاں ان سے ملاقات نہیں ہو سکی، وہیں دوسری طرف آنے والے حکمران نے انتظامی مشنری کو بھی تبدیل کر دیا۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ بھی کہیں آگے پیچھے ہو گئے۔ وفد خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔

اسپتال کی تعمیر شروع ہونے کی نوبت نہیں آسکی۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک عبدالستار افغانی کراچی کے میئر بن گئے، توجہ دیگر کاموں میں الجھ گئی۔ یہ 1994ءکا برس تھا، جب ڈاکٹر فیاض عالم نے رکے ہوئے منصوبے کی طرف توجہ دلائی۔ جہاں اسپتال کے لیے حاصل کیے گئے پلاٹ پر الخدمت ایلو پیتھک ڈسپنسری اور جماعت اسلامی ضلع غربی کا دفتر بنا ہوا تھا۔ باقی حصے پر کئی فٹ گہرے گڑھے اور ان میں پانی بھرا ہوا تھا۔ الخدمت ویلفیر سوسائٹی کے پاس اس قدر پیسے نہیں تھے کہ ایک دم سارے اسپتال کی تعمیر شروع کر دیتی اس لیے پہلے مرحلے میں صرف چار دیواری تعمیر کی گئی۔ احباب کا مشورہ تھا ابتدا میں ڈائیگنوسٹک سینٹر بنایا جائے۔ پروگرام پر عمل درآمد کے لیے ضلع غربی کے امیر اشرف اعوان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی۔ ڈاکٹر فیاض عالم کو پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ فنڈز کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔

 اس موقع پر بہت سارے مخیر حضرات کے علاوہ حلقہ خواتین نے بہت تعاون کیا۔ برطانیہ کی ”مسلم ایڈ“ سے رابطہ ہوا۔ واسطی صاحب سربراہ تھے۔ انہیں اسپتال کی تعمیر کے متعلق تفصیلات بتائیں تو بخوشی تعاون پر آمادہ ہو گئے۔ 2 برس کے مختصر عرصے میں اسپتال کی عمارت وجود میں آگئی۔ بہت ساری سہولیات کا انتظام ہو گیا۔ خدمت خلق کا پیکر ،کراچی سے محبت کرنے والا، اور کراچی کوبنانے اور سنوارنے والا نعمت اللہ خان  25 فروری 2020 کو  اس دار فانی سے رخصت ہوگیا۔  آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں