ابھی میں نے ایک خبر اخبار میں پڑھا کہ جس میں جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں ناچ گانے کی تقریب منعقد کی گئی۔یہ خبر پڑھ کے انتہائی افسوس ہوا ۔اور میں نےقلم سنبھال لیا۔مجھے پتہ چلا ہے کہ وہاں کی خواتین طالبات خود اس تقریب موسیقی کو منعقد کرنے پر راضی نہیں تھیںاور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیاتھا۔پھر وہ کون لوگ ہیں؟ جو رقص و سرور کی محفل برپا کرنا چاہتے ہیں؟
یقیناً یہ کچھ این جی اووزہوںگیں، جنھیں یہاں یعنی پاکستانی ذہنیت اور والدین کے جذبات کا احساس نہیں ہے، یہ تو بس یہودی ایجنڈے کی پاسداری کرنی ہے اور ایک شیطانی وار کرنا ہے ، انہیں اس بات سے بالکل بھی غرض نہیں کے طالبات نا خوش ہوتی ہیں یا ان کے والدین اعتراض کریں۔انھیں تو بس اپنی ذہنی غلامی کا اظہار کرنا ہے، یہ ایسی ذہنیت کے لوگ ہمارے معاشرے میں بمشکل پانچ فیصد ہونگے، لیکن یہ ہمارے میڈیا اور تعلیمی اداروں اور دوسرے ایسے،ادارے جو پاکستان کا دماغ کہلاتے ہیں، وہاں یہ چھائے ہوئے ان نام نہاد افراد کے کنٹرول میں ہیں، جب وہ چاہتے ہیں اسلامی قوانین کی دھجیاں بکھرتے ہیں، یہی پانچ فیصد ذہنی طور پر مفلوج افراد آئے دن ایسے اقدام کرتے ہیں مثلا یونیورسٹی میں کنسرٹ کروانا یا کوئی اسے ڈرامے بنانا ۔
جس میں اسلامی رسم و رواج کا مذاق بنایا جاتا ہوں ا سلامی شعار مثلا پردہ ، داڑھی، آزادی نسواں کے نام پر خواتین جو خاندان کے حصار میں ہیں اور چار دیواری کو لیکر اسلامی روایات کا مذاق کرنا تعلیمی ادارےاور میڈیا کو مفلوج کرتے ہیں یہ ہم ہی ہیں جو نا سمجھ ہیں، ان کے ایجنڈے کو سمجھتے نہیں۔
ہمیں چاہیے اس وقت اپنے بچوں اور یوتھ کی فکر کریں میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے تاکہ پڑھا لکھا طبقہ معاشرے میں عملی طور پر نمایاں نظر آئے تعلیمی ادارے اسلامی و روحانی تربیت نہیں کر رہے اس گمراہی پھیلانے میں ہمہ تن ہیں، حالانکہ کے اکثریت اس بات کو پسند نہیں کر رہی ہوتی کہ یہاں کا معاشرہ ، یہاں کے طلباء وطالبات اسلامی دائرے میں ہی رہنا چاہتے ہیں، تعلیم ایسی چیز ہے جو معاشرے میں شعور بیدار کرتی ہے۔ اپنے معاشرے کے تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے، اسی سے ہمارا معاشرہ درست ہو سکتاہے۔ یونیورسٹیوں میں کنسرٹ کرنے کے بجاے مثبت پروگرامات کرائیں۔جیسے تقریری مقابلے ، کتاب میلہ، بیت بازی مضمون نویسی وغیرہ یہ سب مشورے عام طور پر لوگ پسند کریں گے ۔