ہماری تو72سالہ تاریخ بتاتی ہے اوراکثریت کا مشاہدہ بھی رہاہے کہ جب کسی حکومت نے غریبوں کی حالتِ زار کی بہتری کے لیے مُلک میں مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ اگلے ہی روز سے سب کچھ یکد م اُلٹ ہی ہواہے۔ اِس طرح مُلک میں مہنگائی کم ہونے کے بجائے اتنی بڑھی کہ روزمرہ کی استعمال کی ضروری اشیاء چینی ، چاول ، دال ، آٹا اور گھی وغیرہ کی قیمتیں غریبوں کی پہنچ سے دور ہو کر مہنگائی کے راکٹ کے ساتھ اُوج ثُریا تک پہنچ کر خلاء میں چلی گئیں ۔
اللہ خیر ے کرے، گزشتہ دِنوں وزیراعظم عمران خان کا بھی اپنی حکومت میں مہنگائی کے خلاف پہلی بار دعویٰ عظیم سامنے آیا ہے کہ’’ مہنگائی کم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاؤں گا‘‘ دیکھتے ہیں۔ سر پر کتنے بال ہیں، بہت جلد سب کچھ سامنے آجائے گا اور لگ پتہ جائے گامہنگائی کے خلاف بڑے بڑے دعویدار اپنے دعوؤں میں کتنے مخلص ہیں۔ اَبتک رواں حکومت میں سب سے زیادہ جس شعبے میں ترقی ہوئی ہے وہ مہنگائی کا کھاتہ ہے ۔کوئی دورائے نہیں ہے کہ مُلک میں سب زیادہ مہنگائی بڑھی ہے۔ باقی تواِدھر سے اُدھرتک سب ہی شعبے زوال پذیر ہیں۔
چلیں ، اَب اگر وزیراعظم عمران خان کو مُلک میں بے لگام ہوتی مہنگائی کو لگام دینے اور اِسے قابو کرنے کا خیال آہی گیاہے۔ توکیا مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو اُمید کی مدھم کرن کا دامن تھام لینا چاہئے ؟ یا نا اُمیدی کی بدبودار مہنگائی کی دلدل میں دھنسے عوام کو اِس اُمید سے منہ چُرا کر حکومت کے جلد ازجلد جانے کے لیے بد دعائیں کرتے رہنا چاہئے؟ اَب یہ فیصلہ عوام کریں کہ اِنہیں کیا کرنا چاہیے؟پہلی مرتبہ حکومت کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی جانب اُٹھتے پہلے اسٹیپ (قدم ) کی ثابت قدمی کے لئے صبروشکر سے دُعائیں کرنی چاہیں۔ یا سب سیراب سمجھ کر اپنی حالتِ زار پر روتے رہنا چاہئے۔
بہرحال ،پچھلے دِنوں اسلام آباد بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت معاشی ٹیم کا ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا ، اجلاس کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی سستے نرخوں فراہمی پر پہلی مرتبہ غورکیا گیا۔ ورنہ توپہلے حکومت کا اِس جانب کبھی خیال ہی نہیں گیاتھا ؛یعنی کہ عمران خان کی حکومت میں سب ہی نے مہنگائی کے جن کو کھلا چھوڑے رکھنے اور مہنگائی کو بے لگام کئے رکھنے کو ہی خالی قومی خزانے کو بھرنا اپنی حکومت کی کامیابی جاناتھا ۔حیرت انگیز طور پر اجلاس میں آئی ایم ایف کا کوئی ایسا نامور یا قابلِ اعتبار نمائندہ تو شریک نہیں تھا ۔ہاں البتہ،راقم الحرف کا قوی خیال ہے کہ مہنگائی کے خلاف کئے جانے والے پہلے حکومتی اجلاس میں اُدھرآئی ایم ایف کی لگی بندھی نمائندگی مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے ضرور کی ہوگی۔
اجلاس میں ڈرتے ڈرتے حکومت کی جانب سے پہلی بارمہنگائی کے خلاف پیش کیے گئے ایجنڈے سے متعلق اگلی بیٹھک میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں بھی حفیظ شیخ کو آگاہ کیاگیاہوگا۔کیوں کہ مہنگائی کے خلاف کیے جانے والے ہلکے پھلکے حکومتی اقدامات سے یہی آئی ایم ایف کو بریف کریں گے۔ اَب اِن پر انحصار ہے کہ یہ حکومت کے مہنگائی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات سے متعلق عالمی مالیاتی فنڈ والوں کو کس طرح سمجھاتے ہیں۔ اطلا ع ہے کہ اِس اجلاس میں وفاقی وزیر حماد اظہر ، پاکستان تحریک اِنصاف کے سینئر رہنماء جہانگیر ترین، شہباز گل اور بی آئی ایس پی کی چیئر پرسن ثانیہ نشتر، وفاقی وزیرعلی زیدی اور چیئر مین یوٹیلیٹی اسٹورز بھی شان و شوکت سے شریک تھے۔
اِن تمام وزراء کی موجود گی میں پہلی بار مہنگائی کے خلاف ڈرتے ڈرتے لب کُشائی کرتے ہوئے ۔ہمارے لڈن پپووزیراعظم عمران خان نے کہاکہ’’ مہنگائی کے خلاف ہر حد تک جائیں گے، عوام کو ریلیف دنیا ہوگا، ورنہ حکومت کرنے کا حق نہیں،مہنگائی سابق حکومتوں کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے، ذخیرہ اندوزوں نے بھی حالات خراب کئے، عام آدمی کے کچن میں بنیادی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں گے، غربیوں کو مُفت راش دیاجائے گا،اجلاس میں صریحاََ آٹا، گھی ، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا(مگر بجلی ، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے اور تنخواہ دار طبقے سے ماہانہ ملنے والی تنخواہوں سے کٹنے والے ٹیکسوں کے علاوہ اشیاء ضروریہ پر ڈبل ٹیکسوں کی کٹوتی کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔
کیا یہ مہنگائی کے خلاف کیے جانے والے وزیراعظم کے دعوے اور اَندیکھے حکومتی اقدامات اور اعلان کا کھلا تضاد نہیں ہے؟؟)البتہ،اِس موقع پرلگے ہاتھوں وزیراعظم نے مشیرخزانہ حفیظ شیخ سے کہاکہ کسی بھی مد سے پیسہ کاٹیں ، خریدنے کی سکت نہ رکھنے والوں کو سہولت دیں، کچھ بھی کریں۔ بس عوام کو ریلیف دیں۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے مخصوص لہجے میں ہدایات دیتے ہوئے مزید کہا کہ عام آدمی کے کچن میں بنیادی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں گے، جہاں اِتنا کچھ وزیراعظم نے کہا تو وہیں یہ بھی کہا کہ’’جن خاندانوں میں خریدنے سکت نہیں اِنہیں حکومت راشن دے گی،اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے جھوم
کر یہ بھی کہا کہ احساس پروگرام کے تحت اِنتہائی غریب افرا د کو راشن دیں گے، آج اگر ہم غریب کا احساس نہیں کرسکتے تو حکومت میں رہنے کا حق نہیں ،ہم مہنگائی سے پسے ہوئے غریب کی بہتری کے لئے حکومت میں آئے ہیں،‘‘ بیشک! وزیراعظم مُلک میں موجودہ بے لگام مہنگائی کا عذاب سابقہ حکومتوں کی وجہ سے غریبوں کی کمر کو دُہراکئے ہوئے ہے۔ مگر آپ نے بھی اپنی اَب تک کی حکومت میں کون سا کسی غریب کی بھلائی کے لئے کچھ بہتر کیا ہے؟ آج آپ کی حکومت پر چارسو سے یہی انگلیاں اُٹھ رہی ہیں کہ مُلک سے مہنگائی کو کم کرنے کے بڑے دعویداروزیراعظم عمران خان کی حکومت میں مہنگائی کی سارے ریکارڈ توڑدیئے گئے ہیں۔ رواں حکومت نے غریبوں کی روز مرہ کی استعمال کی بنیادی ضروری اشیاء سے لے کر بجلی ، گیس اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقے پر بے لگام ٹیکسوں کے اژدھے کو بھی نوچ کھانے کو چھوڑرکھاہے۔
وزیراعظم عمران خان تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے عذاب سے بھی نجات دِلانے کے لئے کچھ کریں،کیوں کہ تنخواہ دار سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے ۔جو احتجاج بھی نہیں کرسکتاہے۔ اور حکمرانوں کو تاجروں اور صنعت کاروں کی طرح ہڑتالیں کرکے بلیک میل بھی نہیں کرتاہے۔وہ تو تاجر اور صنعت کارہیں۔ جو گورکھ دھن کرتے ہیں؛ اور اپنا پوراٹیکس ادانہیں کرتے ہیں ۔جتناکرتے بھی ہیں؛ تو اِسے بھی ہڑتالیں کرواکرمعاف کروالیتے ہیں۔جیساکہ وزراعظم عمران خان آپ کی حکومت میں بھی جب تاجروں اور صنعت کاروں نے ٹیکس اور زائد ٹیکس کی ادائیگی کے مد میں چھوٹ کے لئے ہڑتالیں کیں۔ تو حکومت کو اِن سے نرمی سے پیش آنا پڑااور اِن کے مطالبات کو سرتسلیم خم کرتے ہوئے مانناپڑاہے۔ لہذااَب اُس وقت تک مہنگائی کے خلاف حکومت کے دعوے سچائی پر مبنی نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب وزیراعظم عمران خان تنخواہ دار طبقے کو بھی تاجروں اور صنعت کاروں کی طرح ٹیکسوں کی مد میں ریلیف نہیں دیتے ہیں ورنہ ؟ یہ سب ڈرامہ ہے۔