اِس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ حکومت نے تبدیلی کے نام پر انگنت سہانے خواب دِکھا کر عوام کی کھال مہنگائی کی چھری سے اُتار دی ہے۔آج عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر زندہ درگور ہورہے ہیں۔اَب یقینی طور پراجناس آٹا ، چینی ، دال ، گھی اور دیگر روزمرہ کی ضروری اشیاء کو مہنگے داموں خرید کر پیٹ کی آگ کو ٹھنڈاکرنے والے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاہے۔عوام کا حکومت سے عوامی فلاح و بہبودکے کاموں اور ریلیف دینے والے اقدامات پرسے اعتماد ختم ہوگیاہے ۔
ہر طرف بے لگام ہوتی مہنگائی کی وجہ سے نفسانفسی کا عالم ہے، مگر وزیراعظم عمران خان اور حکومتی وزراء اور حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ ہیں کہ سب کی زبان پر ایک یہی جملہ ہے ؛جلد عوام کو اِن کے سنہرے خوابوں کی تعبیرملنے والی ہے، بس تھوڑا ساانتظار کریں… آخر یہ انتظار کب ختم ہوگا؟ اور کب عوام کو وزیراعظم عمران خان کے وعدوں اور دعووں کے مطابق مہنگائی اور کرپشن سے پاک نئے پاکستان کے ساتھ خوشگوار اور مثبت تبدیلیوں والے خوابوں کی تعبیر کا احساس ہوگااور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامژن پاکستان کی تعمیرنظر آئے گی۔
آج اٹھارہ ماہ کی حکومت میں تو ایسا کچھ ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آیاہے، اُلٹا سب قربانیاں غریب عوام سے ہی مانگے جارہے ہیں۔بس حکومت اپنے تئیں مہنگائی کے بے قابوجِن کو کنٹرول کرلے تو عوام کو مہنگائی سے نجات کی سستائی کی ہواکے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ نئے پاکستان کا احساس محسوس ہوجائے گا ورنہ …عوام حکومت مخالف تحاریک چلانے والوں کی جھولی میں خود کو ڈال کر حکومت گرانے کا تماشہ دیکھیں گے۔تاہم جے یو آئی ایک مرتبہ پھر حکومت گرانے کے لیے تحریک چلانے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کے لیے دوسری حکومت مخالف جماعتوں سے رابطے تیز کررہی ہے۔
اَب کچھ بھی ہے؟ مگر اِس مرتبہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے اور دوسروں کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سر پر کفن باندھے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔لہذا یہ مولانا کو حکومت کے خلاف اپنا آخری معرکہ ثابت کرنے کے لیے ساری مصالحتی اور مفاہمتی کشیاں جلانی پڑیں گی۔ اگر اِس کے لیے مولانا گرم جوشی سے تیار ہیں تو پھر خود کو سر سے پیر تک حکومت مخالف تحاریک چلانے کے لیے خود کو میدان میں اُتاریں، ورنہ پہلے کی طرح جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی کیرئیر کے تابوت میں اپنے ہی ہاتھوں سے آخری کیل ٹھونک دیں گے۔
بہرحال اندرونی اور بیرونی کئی سیاسی اور معاشی بحرانوں میں دھنسی پریشانیوں اور مسائل سے دوچاروزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لیے مولانا فضل الرحمان کی اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ حکومت مخالف تحاریک کئی ان دیکھے چیلنجز لیے ہوئے ہوں گی ۔جس کے لیے ضروری ہے کہ یا تو حکومت خود ہی پہلے سے اپنی کارکردگی کوبہتربنالے اور وفاقی اور صوبائی اداروں کی عدم توجہ اور نااہلی کی وجہ سے بے لگام ہوتی مہنگائی سمیت دیگر بنیادی نوعیت کے عوامی مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر دیرپا حل نکال لے۔ تو ممکن ہے کہ جے یو آئی، پی پی پی اور ن لیگ سمیت دیگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی اپنے خلاف تحاریک کا قبل از وقت مقابلہ کرسکے گی ،لیکن اگر خوابِ خرگوش میں ہی پڑی رہے گی تو حکومت کی چین کی بانسری کا اپوزیشن جماعتیں ستیاناس کردیں گی۔لہذا حکومت کو کہیں بھی اپنا منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔
جیسا کہ پچھلے دِنوں غصے اور بغض بھرے لہجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا تھا کہ’’ میرابس چلے تو ابھی حکومت گرادوں‘‘اِس کے بعد توعوام کو یقین ہوگیاتھا کہ لگتا ہے کہ اِس مرتبہ پی پی پی مولانا کا اور فضل الرحمان، بلاول اور زرداری کا کاندھا استعمال کریں گے۔ یوں دونوں اپنے مقاصد میں کسی نہ کسی حد تک کامیابیوں کی دہلیز پر پہنچ کر دم لیں گے یا حکومت کا دم نکالیں گے۔مگر لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے بلاول زرداری نے کہا کہ’’جمہوری اور قانونی طریقے سے حکومت ہٹاناچاہتاہوں، اِ س کے لیے کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری سازش میں شریک نہیں ہوں گا۔
‘‘پھرایسا لگا کہ جیسے ابو جی اور پھوپھو جی کو حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولتوں کے بعد اِن میں سڑکوں پر آکر حکو مت مخالف کسی تحریک کا حصہ بننے کی ہمت نہیں ہے۔البتہ، بلاول زرداری نے جس لہجے میں اپنا اگلا جملہ کہا وہ کچھ یوں تھا کہ’’سیا سی جماعتیں اَب بھی میدان میں نہ نکلیں تو عوام کی نظروں میں گرجا ئیں گی۔‘‘آج اِن کا یہ جملہ اِن کی سیاسی بلوغت کے لیے بڑا سوالیہ نشان لگا رہا ہے ،کیوں کہ تعجب کی بات یہ ہے ایک طرف بلاول خود کہہ رہے ہیں کہ’’ جمہوری اور قانونی طریقے سے حکومت ہٹانا چاہتاہوں، کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری سازش میں شریک نہیں ہوں گا‘‘ اور پھراگلے ہی لمحے کہہ رہے ہیں کہ’’ سیاسی جماعتیں اَب بھی میدان میں نہ نکلیں تو عوام کی نظروں میں گرجائیں گی۔‘‘پہلے تو یہ ایک ہی پریس کانفرنس میں اپنے کہے ہوئے اِن دونوں جملوں کی وضاحت کریںکہ ’’ کسی بھی حکومت کو ہٹانے کے لیے جمہوری اور قانونی طریقے کیا ہیں؟ اور یہ بھی صاف اور سیدھے طریقے سے عوام کو سمجھا دیں کہ ’’ سیاسی جماعتیں اَب بھی میدان میں نہ نکلیں : تو عوام کی نظروں میں گرجائیں گی‘‘ یہ حکومت ہٹانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کس میدان میں نکلنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘‘ اگر جمہوری اور قانونی طریقے سے حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں تو اَب تک حکومت کو گرانے کے لیے کسی جمہوری اور قانونی طریقے کا راستہ کیوں نہیں اپنایا گیاہے؟ اور اگر واقعی بلاول زرداری(زبردستی کے بھٹو)سیاسی جماعتوں کو تو حکومت ہٹانے کے لیے میدان میں نکلنے کا مشورہ دے رہے ہیں ،مگر خود سیاسی جماعتوں کے کسی غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے کنی کٹاکر نکلنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں ۔کیا یہ بلاول زرداری(نام کے بھٹو) کا کھلا تضاد نہیں ہے۔؟؟؟