ہمیں اس بات پر مکمل یقین رکھنا چاہئے کہ انسان تب ہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے جب اللہ کے ہاں اس کا وقتِ مقرر پورا ہو چکا ہوتا ہے، اسی لئے انسان کا مر جانا کوئی حیرت کی بات نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ لیکن کبھی کبھار انسان کچھ اس انداز سے اپنی زندگی ختم کر ڈالتا ہے کہ اپنے رفقاء و اقرباء کو غموں کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔ لیکن اس طرح وہ اپنی زندگی کیوں ختم کرتا ہے؟ پس پردہ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض دفعہ وہ وجوہات تحقیق کی روشنی میں ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہمیں چاروں اطراف سے ان اسباب کے عدم دستیاب پر مذمت سننے کو ملتی ہے جو متوفی کو میسر نہ تھے۔
چند روز پہلے کی بات ہے میڈیا کی تمام اقسام سے ہمیں کراچی کے علاقہ ابراہیم حیدری کے رہائشی ایک غریب باپ کی خودکشی کرنے کی درد ناک خبر موصول ہوئی، اور بڑے زور و شور سے یہ بات بھی بتائی گئی کہ چار بچوں کے باپ نے غربت سے تنگ آکر یہ قدم اٹھایا ہے، اور ساتھ ہی وزیر اعظم کے نام لکھے گئے ایک خط کے تذکرے بھی ہونے لگے، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر ہمارے لوگ اس سانحہ کا ذمہ دار صرف حکومت کو ٹھہرا کر پر زور مذمت کرنے لگے، اور کچھ لوگوں نے موقع کو غنیمت سمجھ کر سیاست چمکانے کی بھی کو خوب کوشش کی۔
آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے، کسی ایک بات کو سرچ کرو تو اس کے بے شمار لنک ہماری اسکرین پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ جملہ” چار بچوں کے باپ کی خودکشی ” بے شک اردو میں ہی لکھ کر گوگل پہ سرچ کر لیا جائے، تو نکلنے والے نتائج کم از کم ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرا دیں گے کہ کتنے ہی ایسے باپ ہیں؟ جو چار بچوں کے تھے وہ خودکشی کر چکے ہیں، طریقہ کار سب کا الگ الگ ضرور تھا، لیکن خودکشی کرنے کی وجہ آپ کو تقریباً ایک ملے گی اور وہ بے روز گاری اور غربت سے تنگی ہے۔ چند کا ذکر سپرد قلم کرتا ہوں۔
مؤرخہ 7 فروری 2019 سٹی 42کی خبر ہے کہ “پولیس کے مطابق چوہنگ کا رہائشی صدیق چاربچوں کا باپ تھا، گزشتہ تین ماہ سے صدیق کے پاس گھر چلانے کے لیے کوئی ڈھنگ کا روزگار نہیں تھا اور اکثر گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر صدیق نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی”۔
5 ستمبر 2019 دنیا نیوز کی خبر ہے کہ “بیماری اور بے روزگاری سے تنگ فرید ٹاؤن کے چار بچوں کے باپ محمد ایوب بٹ نے نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی”۔
مؤرخہ3دسمبر2019 نوائےوقت کی خبرہے،کہ لاڑکانہ میں چار بچوں کے معذور باپ نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔تفصیلات کے مطابق دڑی تھانہ کی حدود میں بلاول کالونی کے رہائشی اللہ بخش سومرو نے خود کو مبینہ طور پر گھر میں لگے درخت سے لٹکا کر خودکشی کی،واضح رہے اسی روز معذور افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں دن منایا جا رہا تھا۔
ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے بعد بہت سے لوگ مذمت کرتے نظر آتے ہیں، جن میں حکومتی نمائندے بھی شامل ہیں، اور فیکٹریوں کے مالک بھی سرکاری عہدیدار بھی اور پرائیویٹ کاروباری بھی۔ لگثری انداز سے زندگی گزارنے والے بھی اور خیموں کے اندر رہنے والے بھی، ڈراموں اور فلموں کے ایکٹر بھی اور ڈائیریکٹر بھی، لکھاری بھی اور قاری بھی۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ سے متعلق انسان ان واقعات پر غم زدہ نظر آتا ہے۔
لیکن کیا صرف غم زدہ ہو جانا ، اور غریبوں کی موت پر امیروں کا مذمت کرنا؟ اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لئے کافی ہے؟ بالکل بھی نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی خواہشات کو ترک کر کے کسی کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اپنے مال کا کچھ حصہ ان غرباء ، یتیموں اور مسکینوں کے لئے متعین کرنا چاہیے، ہوا میں اڑ کر زندگی گزارنے سے بہتر سے زمین پر دھیرے سے چل کر زندگی کو بسر کیا جائے،تا کہ زمین والوں کی ضرورت کا ہمیں کچھ احساس ہو سکے۔
بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا سنت رسولؐ بھی ہے، آپؐ نے غربا اور مساکین سے مدد کی بہت زور دیاہے، ایک دفعہ آپؐ نے دعا فرمائی اے اللہ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ اور مسکینی ہی میں موت دےاور میرا حشر بھی مساکین کے ساتھ فرما، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وجہ دریافت کی ، تو آپؐ فرمانے لگے مساکین جنت میں اغنیا سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے، اے عائشہ! آپ مسکین کو کھجور کو ٹکڑا ہی کیوں نہ دیں لیکن اسے خالی ہاتھ مت لوٹانا، اے عائشہ ! مسکینوں سے محبت کرتی رہیں، اور ان کو اپنے قریب رکھیں، اللہ قیامت کے دن آپ کو اپنے قریب رکھے گا۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا! زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ اور ایک جگہ آپؐ نے فرمایا مجھے اپنے کمزوروں میں تلاش کرو، تمہیں اپنے ضعفا کی وجہ سے روزی دی جاتی ہے اور مدد کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں غربا اور مساکین کا درد عملی طور پر سمجھانے کی خاطر رمضان کا مہینہ دیا، جس میں انسان کچھ وقت کے لئے روزہ رکھتا ہے،بھوک بھی لگتی ہے، پیاس بھی لگتی ہے ، لیکن یہ امید بھی ہوتی ہے کہ غروب آفتاب کو افطار کر لیں گے، لیکن دنیا میں کچھ ایسےلوگ بھی ہیں جو ناجانے کب سے بھوکے ہیں؟ اور انہیں کسی خاص وقت کی امید بھی نہیں کہ انہیں کچھ کھانے کو ملے گا، یا ان کو کوئی کھلائے گا۔ ایسے بے سہارا لوگوں کی امید بننے کی ضرورت ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ غربت کی وجہ سے غریب کی موت پر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اور سوچیں کہ کیا اس کا ذمہ دار صرف کوئی خاص طبقہ ہے؟ یا ہر وہ شخص جس نے سب کچھ دیکھتے ، سنتے آنکھوں کو بند رکھا۔ تو اس سوچ و فکر سے جو نتیجہ اخذ ہو اس پر بنیاد رکھتے ہوئے صرف قولی مذمت مت کریں، بلکہ عملی مذمت کرتے ہوئے ان بے کسوں کی مدد کرنے میں اپنے وسعت کے مطابق حصہ ڈالیں ،کہ غریب کی مدد سے زمین والے بھی خوش ہوں گے، پیارے نبی ؐ کی عظیم سنت ہر عمل بھی ہوگا، آسمان والا بھی رحمتیں برسائے گا، اور یہ بھی ممکن ہوجائے گا، کہ آئندہ اس طرح کے کسی واقعہ پر مذمت کرنے کی نوبت بھی نہ آئے گی۔