جناب! شوگر مل کے دروازے پر گنے کی ٹرالیاں لگنی شروع ہوگئی ہیں۔ اور کافی دور تک قطار نظر آرہی ہے۔چپراسی نے اندر آکر یہ اطلاع شوگر مل کے مالک اور منیجر دونوں کو دی ۔ مل کے مالک نے کہا کہ حکومت نے جو قیمت لگائی ہے وہ تو زیادہ ہے ۔ کچھ سوچو کیا کرنا چاہیے؟ میرا ایک دوست ہے حال ہی میں وہ باہر سے تعلیم مکمل کرکے واپس آیا ہے اس کو بلاتاہوں اور مشورہ کرتا ہوں۔
اگلے دن دفتر میں مل کا مالک ،منیجر اور مل کے مالک کا دوست آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ منیجر نے کہا کہ ہمیں حکومت کے دیے گئے نرخوں کے مطابق گنے کی خریداری کرلینی چاہیے۔ مل کا مالک بولا کہ اگر ہم حکومت کے مقرر کردہ قیمتوں پر گنا خرید لیں تو ہمارا منافع بہت کم ہوگا۔ منیجر بولا کہ جناب میں نے تمام حساب لگاکر دیکھ لیے ہیں، ہمیں اچھا خاصا منافع حاصل ہوگا۔اور ہمارے غریب کسانوں کے گھروں کے چولہے بھی جلتے رہیں گے، ان کی ضروریات بھی پوری ہوگی ،ان کے بچے بھی اسکول جاسکیں گے۔
ارے او بھائی ہمدرد دواخانے !تمہیں ان غریب کسانوں سے بڑی ہمد ردی ہے، ارے ہمارا بھی تو سوچو میرا بھی بیٹا امریکہ میں زیر تعلیم ہے ۔ بلکہ تم کو تو صرف ہمارے فائدے کی بات سوچنی چاہیے تم ہمارے ملازم ہو۔
ہاں کمال! بتاؤ کیسی رہی تمہاری تعلیم بڑی محنت کی تم نے ۔۔۔۔۔شاباش آخر تم کو تجارت میں اعلٰی ڈگری مل گئی ۔میں نے تم کو اس لیے بلایا تھا کہ ذرا مشور ہ دو کیا کیا جائے ؟حکومت نے گنے کی خریداری کے لیے نرخ مقرر کر دیے ہیں ۔ اب کئی دنوں سے باہر ٹرالیا ں قطار میں کھڑی ہیں، میں ان سے خریداری کا فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کیا کروں ؟ کوئی ترکیب بتاؤ کہ میں اپنی مرضی کے بھاؤ میں گنے خریدلوں اور چینی بناکر مارکیٹ میں اچھی قیمت میں بیچوں۔
کمال! ارے کوئی فکر کی بات نہیں میں ایسا طریقہ بتاتا ہوں کہ تم ان بے وقوف کسانوں سے اپنی مرضی کے مطابق خریداری کروگے ۔تم ان کو اور کچھ دنوں تک اسی طر ح کھڑے رہنے دو اور اپنے لوگوں کو انکے پاس بھیجتے رہوں تاکہ ان کے بارے میں معلومات ملتی رہے، جب یہ اپنی ٹرالی لے کر اور کچھ دنو ں تک کھڑے رہیں گے، تو ان کی ٹرالیوں کا کرایہ ان پر بڑھتا جائے گا اور گنا سوکھتاجائے گا، اس طرح یہ خود ہی پریشان ہوکر اپنے گنے تمہاری مرضی کی قیمت پر تم کو بیچ کر جائیں گے۔
واہ بھئ واہ۔۔۔۔۔یہ ہوئی بات۔۔۔ باہر کی تعلیم کے کیا کہنے ۔۔۔یار کمال بڑے پتےکی بات تم نے بتائی۔ بہت بہت شکریہ ۔۔۔کمال ! ارے یہ تو کچھ نہیں وہاں تو لوگوں کی جیب خالی کرانے کے بڑے طریقے سکھائے جاتے ہی۔تم یو ں سمجھو کہ میں تو وہ ہنر بھی یونیورسٹی سے سیکھ کر آیا ہوں کہ جہاں برف ہی بر ف ہوتی ہے، وہاں کس طرح فریج اور دوسری اسی طرح کی چیزیں بیچی جاتی ہے ۔اچھا میں چلتا ہوں ۔ بس تم صبر سے کام لو اور اپنی مرضی کی قیمت پر گنے خریدو اس کے بعد چینی بھی اپنی مرضی کے مطابق زیادہ سے زیادہ قیمت پر بازاروں میں جاکر بیچو۔۔۔۔اللہ حافظ۔
یہ ہے سرمایا دارانہ سوچ ۔۔۔جو کہ انسان کو زر کا بندہ بناتاہے۔ انسانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا، اس کے بعد انسانو ں کو انسانوں کی غلامی پر مجبور کرنا ہے۔یہ غربت کے خاتمے اور خوشحالی کے خواب انسانو کو دیکھاتاہے ۔یہ انسانوں کی کامیابی کا ایک جھوٹا پیمانہ دیتاہے ۔ جس کے مطابق وہ انسان زیادہ کامیاب ہے، جس کےپاس زیادہ سے زیادہ مال ہو۔یہاں کامیابیوں کا معیار پر آسائش زندگی ہے۔یہ انسان کو بخیل بناتا ہے ۔یہ اپنے مفاد کا بندہ اپنی غرض کے لیے کسی تفریق کے بغیر پوری دنیا کو آگ اور خون کے دریا میں ڈبو دینا چاہتاہے۔اس قبیح سوچ کے پندار میں قومیں بھی گرفتار ہوتی ہیں اور فرد واحد بھی۔آج اس بات کو سمجھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کمزور اور غریب ممالک پر مسلط کردہ جارحیت اور ظلم کو دیکھیےجس کے پس پشت یہی مقصد پنہاں ہے۔شہر کے شہر اور ملکوں کے ملک کھنڈرات میں تبدیل کئے جارہے ہیں۔ایسانظام معاشرے کے لیے ناسور ہوتاہے، اور سود در سود کے چکر میں فرد اور پوری کی پوری قوموں کو پھانسنا چاہتاہے۔
آج دنیا میں کتنے ہی ایسے ممالک ہے جو کہ اپنے خود غرض حکمرانوں کی وجہ سے سودی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارےملک پاکستان کے سر پر بھی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ مگر بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ معیشت استحکام کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔
سرمایا دارانہ نظام انسان کو ما ل کا حریص بناتاہے ۔اس کے نزدیک نہ کوئی قوم، نہ کوئی مذہب، نہ کوئی اور رشتہ ہوتاہے، اس کی آنکھوں پر ایک چشمہ لگا ہوتاہے ۔ اس کی تمام زندگی کی تگ ودو کا مقصد صرف اور صرف اپنا مفاد ہوتاہے۔ مال اور وسائل کے حصول کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتاہے ۔ یہ کبھی کبھی فلاحی کام بھی انجام دیتا ہے، کبھی اصلاح کے نام پر ملکوں اور قوموں پر فوج کشی بھی کرتاہے۔
قرآن میں اللہ نے ایسے لوگوں کی مثال کتے سے دی ہے، جس کی زبان ہر وقت باہر لٹکی رہتی ہے ۔آج دنیا کی دولت کا بہت بڑا حصہ چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر یکجا ہوچکا ہے ۔ اور باقی دنیا کے افراد اپنے جسم وجان کے رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے سرمایاداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو کبھی گندم ،کبھی چاول، پینے کے پانی ،ادویات ہر ایک زندگی کی اہم بنیادی اشیاء کو اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرلیتےہیں، مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور قیمت بڑھا کر اشیا مارکیٹ میں لاتے ہیں ۔قوت خرید کو اس طرح سے کمزور کرتےہیں۔یہ سوچ اگر نچلی سطح پر ہوتو افراد کو اپنا غلام بناتی ہےاور اگر یہ سوچ پروان چڑھنا شروع ہوجائے تو ایسی قومیں وجود میں آتی ہیں جو کہ کمزور قوموں کو اپنا غلام بناتی ہیں۔
اس کے برعکس اسلام ایک ہمہ گیر معاشی نظام قائم کرتاہے ۔اس نظام کی بنیاد اللہ کا خوف ہوتا ہے، اس عمارت کی پہلی اینٹ زکواۃ ہے، جس کے معنی نشونما دینا پاکیزہ کرنا۔ اسلام معاشرے میں سرمائے کو گردش کراتاہے، اس طرح ہر انسان کے پاس زندگی گزار نے کے وسائل آتے ہیں ۔انسان کی عزت دوسرے انسانوں کے ہاتھوں پامال نہیں ہوتی ۔ ایسے معاشرے میں انسان سخی بنتا ہے، اس کے دل سے مال کی محبت کی جگہ اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور انسانوں سے پیار ہوتاہے ۔ باہمی نفرتوں کا خاتمہ ہوتاہے ۔ معاشرے کے صاحب ثروت افراد غریبوں کے محبوب ہوتےہیں۔جب تک انسان سرمایا دارانہ نظام کی اسیری سےآزاد نہیں ہوتا اس وقت تک انسانیت لہو لہو اور پامال رہے گی ۔
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو
(علامہ اقبال )