ریاضی کو سائنس کی ماں کہا جاتا ہے، لیکن ریاضی میں ماں کی کوئی نشانی مجھے نظر نہ آئی، البتہ جمع ضرب،نفی اور تقسیم کے علاوہ جو ریاضی جماعت نہم سے لے کر ایم ایس سی تک پڑھائی جاتی ہے، میں نے آج تک عملی زندگی میں اس کا استعمال نہیں دیکھا اور سارے سوالات فرض کریں سے شروع ہوکر بے نتیجہ جواب جس کا تعلق عملی زندگی سے نہیں ہوتا پر ختم ہوجاتے ہیں، جو لوگ ریاضی میں ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کر جاتے ہیں، وہ صرف ریاضی پڑھاتے نظر آئینگے، تو یہ کیسی سائنس کی ماں ہے؟ جس کی کوئی پیداوار اور کوئی عملی میدان موجود نہیں، اگر شاید ہو بھی پر مجھے اس کا علم نہیں۔
ریاضی کے علم میں انگریزی حروف کے صرف xاورy ہی استعمال ہوتے ہیں، دوسرے حروف کے ساتھ ان کی کیوں دشمنی لگی ہے۔ماں تو رحم کی پیکر ہوا کرتی ہے، لیکن ریاضی رحم سے عاری۔
جتنے طلبا ریاضی میں مار کھاتے ہیں، اتنی مار تو ہمارے تھانوں کے اندر ریمانڈ میں نہیں ہوتیں۔اور پھر بھی اس کو سائنس کی ماں کہاجاتا ہے، میں تو کہتا ہوں کہ ریاضی تو سائنس کی فرعون ہے، جس نے طلبہ کو مار مار کر تھرڈ ڈویجن تمھاکر مستقبل کو دائو پہ لگادی۔
ریاضی کو سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں اس کے لئے ایک الگ ذہنیت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کسی کی عنبری زلفیں بھی انسان کو ایسے مسائل میں پھنسا دیتی ہے کہ پھر اسی جال سے نکلنا الجبرا حل کرنے سے زیادہ کھٹن ہوتا ہے۔
تمھاری زلفیں اپنی چہرے پہ تقسیم کرنا چاہتا تھا، لیکن ان زلفوں نے مجھے تقسیم کرکے رکھ دیا اور تقسیم کے ساتھ ضرب دے کر دنیا کے کام کاج سے نکال دیا۔میں ان زلفوں کو جمع کرنے کی ارمان کررہاتھا، مگر ان زلفوں نے مجھے دنیا کی رونق سے منفی کرکے ہیرو سے زیرو بنادیا۔میں اپنے آپ کو سینکڑوں لوگوں میں خوش نصیب تصور کررہاتھا، لیکن تمھاری زلفوں نے میرا جب فیصد نکالا تو ان 50%فیصد پاگلوں میں ایک میں بھی شامل تھا۔تمھاری زلفیں جب چہرے پہ بکھر جاتی ہے، تو اسی وقت میرے ارمان کسور عام کی طرح ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ زلفیں کمر پہ حکومت قائم کرتی ہے، تو جیومیٹری کے تمام زاویئے میرے ذہن کو منتشر کر دیتی ہے۔لیکن جب یہ زلفیں آپ کی آنکھوں کے اوپر ناچتی ہے تو لوگوں سے میرا نسبت تناسب ختم ہوجاتا ہے۔لیکن جب پلکیں اوپر اٹھ جاتی ہیں تو میرے دل ودماغ کے تمام سیٹ ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔
بس جتنی پیچیدہ ریاضی ہے اس سے کہیں ذیادہ پیچیدہ تمھاری زلفیں اور ریاضی میں سب سے مشکل الجبرا اور ٹریگنو میٹری اور تمھاری زلفوں کے خم ، نہ جانے یہ زلفیں گھنیری کیوں انسان کو سلگتے ارمانوں کی اعشاریوں میں ذرے ذرے کرتا ہے۔
یہ ریاضی اور میرا ماضی یہ زلفیں اور آنکھیں شرابی نہ جانے کب اس جال زندان سے مجھے خلاصی نصیب ہوگی ؟تم ادھر سلجھاتی رہو اپنی زلفوں کو اور میں الجھتا رہوں تمھاری یادوں میں شاید تمھاری زلفوں کی اداؤں کو دیکھ سائنس کی ماں بھی ان اداؤں کے حساب نہ دے سکے اور سائنس کی ماں کی طرح پیچیدہ،،الجھے الجھے زلفیں بھی کبھی کسی سے راحت اور سکون کو زندگی سے چھین لیتی ہیں۔
بس یہ ریاضی کسی خوش نصیب کیلئے کھیل اور یہ زلفیں کسی بدنصیب کیلئے جیل ۔بس کوئی ہوگیاپاگل ریاضی میں اورکسی کو کردیا گھایئل زلفوں نے۔