لوگ سمجھتے ہیں کہ میں کوئی بڑی عیش و عشرت اور رنگینیوں بھری زندگی میں بڑی موج میں ہوں، وہ سمجھتے ہیں کہ میں کالے سُوٹ اور واسکٹ کے نیچے پسٹل لگائے، آنکھوں پہ کالا چشمہ ٹکائے، ہاتھ میں بریف کیس لیے، بڑی شان سے ایک لمبی سیاہ گاڑی سے اُتر کر اپنا کام کرکے شان سے ایک پرائیویٹ جیٹ یا ہیلی کاپٹر میں اڑ کر منزل کی طرف چلا جاتا ہوں اور رات کو میرے چاروں طرف ایک رنگینی اور دلکشی کا سماں رہتا ہے۔نوٹوں کی ریل پیل رہتی ہے، جس کو چاہا دُنیا سے بھیج دیا جو کچھ کرنا چاہوں کرتا پھروں۔ مشن مکمل ہونے پر مجھے حکومتیں ایوارڈ اور اعزازواکرام سے نوازتی ہیں اور پھر میں اپنے بیوی بچوں کو لیکر ایک خوبصورت جزیرے پر عالیشان بنگلے میں آرام سے زندگی کے آخری ایام گزارتا ہوں۔
اوپر لکھی گئی سطریں وہ ہیں جو میرے بارے میں دُنیا خیال کرتی ہے، آج میں آپکو بتاتا ہوں کہ میری زندگی کی حقیقت ہے کیا؟کیامیرے بارے جو کہا جاتا ہے، فلمیں بنائی جاتی ہیں، ناول لکھے جاتے ہیں،کیا میری زندگی ایسی ہے؟ تو بالکل بھی نہیں جو کچھ میں سہتا ہوں اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
کیونکہ میں ایک دُکاندار ہوں، جو اپنے گھر کے ساتھ ایک دُکان کھولے دن بھر اُسی دکان میں گزار دیتا ہوں، لوگ مجھے محض ایک دُکاندار جانتے ہیں اور دن بھر بچوں اور بڑوں کا شور میری سماعتوں سے ٹکراتا رہتا ہے،میری نظریں آنے جانے والے گاہکوں اور گلی میں گزرتے راہگیروں کے تعاقب میں مصروف رہتی ہیں۔میری سماعتیں ہر آنے جانے والی کی باتوں سے باخبر انکی باتوں کو سُننے اور سمجھنے میں مگن،گاہکوں کی نگاہیں پڑھ کر اپنے مطلب کی بات نکالنا میرا ہنر ہے۔میرا ذہن آنے جانے والوں میں نہایت مستعدی سے کام کرتے ہوئے ہر حرکت کو نوٹ کرکے محفوظ کر رہا ہوتا ہے اور لوگ محض مجھے ایک دکاندار سمجھ کر گزر جاتے ہیں اور کام ختم ہونے پر میں اپنا بوریا بستریا گول کرکے خاموشی سے چلا جاتا ہوں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔
میں ایک اُستاد ہوں، ایک لیکچرر یا ایک پروفیسر، کسی اسکول کالج، یونیورسٹی میں پڑھاتا اُستادہوں۔ میرے شاگرد، میرے دوست، میریکولیگز اور میرے اہل و عیال محض مجھے ایک اُستاد کے طور پرجانتے ہیں، مگر میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ نظر رکھتا ہوں اپنے شاگردوں، اپنے کولیگز اور تعلیمی اداروں میں آنے والے افراد پر جو کہ دشمن ہیں، میرے اپنوں کے، جو میرے ملک کے تعلیمی اداروں کو دہشتگردی کا اڈا، نفرت کا بازار، منشیات کا گڑھ بنانے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں کئی آتے ہیں ملک دشمن ایجنٹوں کے رُوپ، کوئی میرے بچوں کے ذہنوں میں ملک کے خلاف نفرتوں کا بیج بونے مگر میں موجود رہتا ہوں۔ میں نظر رکھتا ہوں،میں سرگوشیاں سُنتا ہوں، میں تاک میں رہتا ہوں اور پھر ایک دن میں اپنے دشمنوں سمیت نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہوں اور کسی کو کانوں خبر تک نہیں ہوتی۔
میں ایک سُوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہوں مجھ سے ساری دُنیا بے خبر مگر میں ساری دُنیا سے باخبر، دن بھر اپنے موبائل اپنے کمپیوٹر اپنے لیپ ٹاپ پرنظریں جمائے دُشمن کے ہر پروپگنڈہ کامؤثر جواب دے رہا ہوتا ہوں, اپنے لوگوں کے ذہنوں تک پہنچتی دشمن کی چال اور دشمن کے نفسیاتی واروں کو خود پر رُوک کر میں اپنے لوگوں کو دشمنوں کی چالوں اور افواہوں سے باخبر رکھتا ہوں، مگر کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ میرا نام کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟ میں کب تک ہوں اور پھر ایک دن میں چپکے سے چلا جاتا ہوں۔
میں ایک ہیکر ہوں جو دن بھر دشمن کے سائبر حملوں کا مقابلہ کرکے وطنِ عزیز کے معاشی اور دفاعی نظام کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کی تگ و دُو میں لگا رہتا ہوں اور اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ دشمن کو بھی سائبر محاذ پہ ایسی کاری ضرب لگاتا ہوں کہ دشمن چیخ اُٹھتا ہے۔ہاں وہی ہوں میں جس نے براہموس میزائلوں کا ڈیٹا چُرایا تھا، ہاں وہی ہوں میں جس نے انڈین آرمی کے نیٹ ورک میں گُھس کر انڈین آرمی کو سکتے میں ڈال دیا تھا، ہاں وہی ہوں میں جو افغانستان میں بیٹھے امریکی ونیٹو افسران کے محفوظ ترین نیٹ ورک میں گُھس کرقیمتی معلومات لے آیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے 2010، 11 میں بھارت کو سائبرحملوں کے حوالے سے معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
میں ایک فقیر ہوں، گلی کُوچوں میں ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتا فقیر، میں ڈانٹا جاتاہوں، میں کُوسا جاتا ہوں، میں بھکاری بھکاری کی صداؤں سے بھی واقف ہوں، میں لوگوں کی تضحیک بھری نگاہوں سے بھی واقف ہوں،میں کوڑے کچرے پہ گندگی کے ڈھیر پہ گلی پڑا سڑی خوراک کھاتے بھی ملتا ہوں۔ میں گندے بدبودار،پھٹے پُرانے لباس میں بھی ملتا ہوں، میں جون،جولائی اور اگست کی تپتی گرمی اور دھوپ میں دربدرپھرتا ہوں،میں ٹھٹھرتی یخ اور اندھیری راتوں میں تمھارے گلی کوچوں میں پھرتا ہوں۔ میں اوزار اٹھائے تمھاری گلی کا کُوڑا کرکٹ اکھٹا کرتے یا تمھاری گلیوں میں تمھارا فضلہ اٹھاتے ملتا ہوں،میں کسی کھاتے پیتے گھر کا چشم وچراغ ہوں مگر میں کوڑے کچرے، بدبودار گندگی کے ڈھیر پے لیٹے پایا جاتا ہوں، دن بھر ایک ایک رُوپے کی صدالگاتے، بھیک میں ملی رُوٹی بھی کھالیتا ہوں، میں تمھاری مسجدوں کے دروازوں پہ تمھارے آگے ہاتھ پھیلائے بھی ملتا ہوں،میں چھابڑی والا، میں ملنگ، میں خاکروب میں چوکیدار میں ہر رُوپ میں تمھارے اردگرد موجود ہوں،میں اپنی ہستی مستی مٹا کر بدتر سے بدترین روپ میں تمھاری حفاظت کرتا ہوں۔ اُس رُوپ میں کہ جسے تم چھونا اور پاس بٹھانا تو درکنا دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔مگرمیں موجود ہوتا ہوں تمھارے اردگرد کہ کوئی دشمن تمھیں نقصان نہ پہنچا سکے، کوئی دشمن تمھیں گوشت کے لتھڑوں میں بدل کے نہ چلاجائے۔
میں تمھاری مسجد کا امام ہوں۔ پاک صاف لباس میں ملبوس، چہرے پہ خوبصورت گھنی داڑھی اور کاندھے پہ چارد سجائے ذکرِ خدا میں مشغول رہتا ہوں میں سب سے گھل مل کررہتا ہوں، میں مسجد میں آنے جانے والے ہر ایک کو خوش اخلاقی سے ملتا ہوں میں ان میں پہچان کرتا ہوں دُوستوں اور دشمنوں کی،میں خبر رکھتا ہوں مسجد میں کون آیا کون گیا گلی مُحلے میں کون آیا اور کون گیا، کس گھر میں کون رہتا ہے، کیا کرتا ہے اپنا ہے ملک کا دشمن ہے میں سب کی خبررکھتا ہوں میں وُہ دین بتاتا ہوں جو محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے میں تلاش کرتا ہوں منافرت اور فرقہ پھیلانے اور عناصر کو۔ پھر ایک دن میں چلا جاتا ہوں تمھارے گلی محلوں اور چوراہوں کو ان عناصر سے محفوظ کرکے جو خون کی ہولی کھیلنے آئے تھے۔
تمھیں خبر ہی نہیں مگر میں موجود ہوں سرحد پار دشمن کے کونے کونے میں کسی مندر کی ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پہ، بھگوان بھگوان کرتے دشمنی کی ایٹمی وفوجی تنصیبات کے سامنے بھیک مانگتے، دشمن کے فوجی قافلے کے راستے میں کچرے کے ڈھیر پر، ہاں میں موجود ہوں دشمن کی ایٹمی لیبارٹریز میں، دشمن کی چھاؤنیوں میں، دشمن کے ایوانوں میں، بالی وڈ سے کھیل کے میدانوں میں، سینما سے گرجاخانوں میں،ہاں میں جانتا ہوں میرا دشمن کیا چال چلتا ہے؟ میں جانتا ہوں وہ میرے ملک پہ کس سمت سے کس وقت کس طرح حملہ کریگا؟
ہاں میں وہی ہوں جس نے انڈیا کے ہوائی اڈوں کواستعمال کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا، ہاں میں وہی ہوں جس نے انڈیا اور امریکہ کی کشمیر کو خودمختار ریاست کا درجہ دیکر پاکستان سے جُدا کرنے کا منصوبہ ناکام بنایا تھا۔میں وہی ہوں جس کے خوف سے رات کو دُشمن سُو نہیں پاتا۔میں وہی ہوں جُو دشمن میں سپاہی سے لیکر جنرل کے عہدے تک موجود ہوں، میں وہی ہوں جو دشمن ایجنسی راء میں موجود ہوں، میں وہی ہوں جس نے افغانستان میں راء کو پنپنے نہ دیا، میں وہی جس نے تمھیں بلوچستان میں شکست دی اور دشمن کے منصوبے الحمدللہ اسکے منہ پہ دے مارے، میں وہی ہوں جس نے قبائلی علاقوں میں دشمنوں کے منصوبے ناکام بنادیئے۔میں وہی ہوں کہ جو آج تک تمھارے قابو میں نہ آسکا۔آؤ تمھیں یہ بھی بتلاؤں میں نے رُوس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، جب رُوس افغانستان سے گزرکر میرے وطن پاکستان کی پاک سرزمین پہ آنا چاہتا تھا، تو میں اسے اپنی سرزمین پہ ایک قدم تک نہیں رکھنے دیا اور میں نے اُسی سپرپاور کو ایک شکست خوردہ ریاست میں بدل کر پارہ پارہ کردیا۔
میں نے رُوس سے چیچن مسلمانوں کو بچایا، میں بُوسنیا میں لڑا، میں نے رُوسی کی سب سے طاقتور ایجنسی ”کےبی جی” کا وجود مٹا کے رکھ دیااور ایک رُوس سے کئی مسلمان ریاستوں کو آزاد کردیا۔میں وہی تو ہوں کہ جب امریکہ نے میرے وطن ِ عزیز کو پتھر وں کے دُور میں دھکیلنے کی بات کی تو میں نے مسکرا کر امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے لبیک کہہ دیا۔خبر تھی میں نے کیا کرنا ہے ؟مگر امریکہ اپنے ناز میں میری خداداد صلاحیتوں کو فراموش کرچکا تھا مگر اسے خوف تھا، میرا اس لیے اس نے وقت کے جنرل سے کہا مجھے آئی ایس آئی نہیں چاہیے تو میرے جنرل نے نئی پیکنگ میں پُرانا مال ڈال کردے دیا اور آج وُہی امریکہ جو میرے وطن کو پتھروں میں دھکیلنے کے خواب دیکھ رہا تھا، آج افغانستان کے تپتے صحراؤں اور پتھریلے پہاڑوں سے سر ٹکرا ٹکراکررورہا ہے۔آج وہی امریکی جو میری صلاحیتوں سے واقف نہیں تھے ،آج چیخ چیخ کرمیرا نام لیکرلیکر اللہ کے فضل سے ٹکریں ماررہے ہیں۔
میں نے پاکستان کو دُنیاکا بہترین اور محفوظ ترین ایٹمی نظام دیا، میں نے پاکستان کو اسلامی دُنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنایا، میں نے پاکستان کو بہترین میزائیل پروگرام دیا، میں پاکستان کو دُنیا کی سب سے طاقتور ایجنسیز اور فوجی طاقتوں سے اللہ کی مدد سے محفوظ رکھا۔ میں نے پاکستان کو دُشمن کی پراکسیز سے بچایا، میں پاکستان میں چھپے اندیکھے، انجانے اور اپنوں کے بھیس میں چھپے دشمنوں کو جادبوچا، میں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بیک وقت راء، موساد، سی آئی اے، بلیک واٹر، این ایس اے، این ڈی ایس اور ایسی سینکڑوں ایجنسیز جو اس پاک وطن کو خاک میں ملانے کا ناپاک ارادہ رکھتی تھیں انہیں دُھول چٹوادی، میں نے آج تک دشمنوں کو پاکستان کے ایٹمی نظام کی ہوا تک نہیں لگنے دی، میں نے اسرائیل امریکہ انڈیا کے پاکستان پر حملے کے منصوبے ناکام بنائے، میں نے افغانستان میں گھس کے پاک وطن کے غداروں اور دہشتگردوں کو نیست وبابود کردیا۔
ہاں میں اس بات کا بھی اقرارکرتا ہوں کہ میں اس وطن کی سیاست میں بھی موجود رہا مگر خدارا کسی اقتدار کی خاطر نہیں، کسی لالچ کی خاطر نہیں، مگر مجھے معلوم تھا کہ تمھارے چُنے ہوئے تمھارے ووٹ سے آئے ہوئے اقتدار کے پُجاری تمھارے دشمنوں کے ہاتھوں بک چکے تھے، تمھاری نظریات تمھارا نام تک مٹادینے کے درپے تھے، تمھیں خبر نہیں تھی مگرمیں واقف تھا انکی چالوں سے۔ہاں میں موجودتھا سیاست میں را ، موساد، سی ائی اے اور این ڈی ایس کی سرگوشیاں سننے کے لیے، میں موجود تھا وطن کے خلاف ہوتی ہر سازش کو ناکام بنانے کے لیے، ہاں میں سیاست میں موجود تھا کہ دشمن سے مال و متاع لیے غدار اس ملک کی اس ملک میں بسنے والوں کی سلامتی کا سُودا نہ کرلیں۔مجھے دشمن کے داؤپیچوں کا جواب دینے کے لیے سیاست میں آنا پڑامگر مجھے کبھی اقتدار کا لالچ نہیں رہا۔جن لوگوں کی محبت میں مجھے تم گالیاں دیتے ہو وہ تمھارے ووٹوں سے آئے تھے ، انہیں تم لائے تھے مگر انہوں نے تمھاری نظروں میں دھول جھونک تمھارے ہی بچوں تمھاری ہی نسلوں کے خون کا سُودا دشمن سے جاکیا۔انہوں نے مال و متاع کے بدلے دشمنوں کو تمھاری سرزمین تمھیں مارنے کو فراہم کی اور اپنے بچے ملک سے باہر بٹھادیے جبکہ خود وہ سینکڑوں گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ حفاظت میں جاتے۔تم مجھے گالی دیتے ہو لیکن میں تمھاری ہی حفاظت میں بدنام ہوتا رہا۔
میں تمھیں بتلاتا جاؤں ناں تو یہ داستان کبھی ختم نہ ہویہ 7 دہائیوں کی داستان ہے یہ درداور کرب سے بھری داستان ہے۔آؤ میں تمھیں اس سب کی قیمت بھی بتلادوں، کبھی یوں بھی ہوتا کہ دشمن مجھے گرفتار کر لیتا ہےاور تم جانتے ہومیرا دشمن بدترین اور شدت پسند ذہنیت کا ہے، پھر کبھی سُوچاکہ وہ میرے ساتھ کیا کرتا ہوگا؟
ہاں وہ مجھے اذیت دیتا ہے ایسی اذیت کے موت بھی خوف سے میرا ساتھ چُھوڑجاتی ہے، مجھے ماراجاتاہے مجھے گھسیٹا جاتاہے،مجھے بھوکاپیاسا بدبودار کال کوٹھری میں پھینک دیاجاتاہے، رُوز اذیت دینے کا ایک نیا طریقہ آزمایا جاتا ہے۔میرے بدن سے خون رستا رہتا ہے میرے کھلے زخم جلتے رہے ہیں۔میرے ناخن کھینچ لیے جاتے ہیں، میرے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں،میرا جسم چیردیا جاتاہے، مجھ پر کتے بھی چُھوڑجاتے ہیں، میرے زخموں پر نمک بھی چھڑکاجاتا ہے، میرے بدن کی ہڈیاں تک تُوڑی جاتی ہیں ، مگر میں اس درد میں ایک کرب میں کبھی اپنے وطن سے غداری نہیں کرتا، میں کبھی اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا میں کبھی اپنے وطن کے خلاف دشمن کا بازو نہیں بنتا۔ پھر ایک دن یوں بھی ہوتا ہے میری زبان کھینچ لی جاتی ہے، میری آنکھیں نُوچ لی جاتی ہیں۔
میری دُنیا خاموش اور تاریک کردی جاتی ہے،لیکن لیکن ابھی یہ کرب ختم نہیں ہوتاجس پاک دھرتی کی خاطر میں جان سے جاتا ہوں ،مجھ بدقسمت کو تو آخری وقت میں بھی اُس پاک وطن کی دُوگززمین تک نصیب نہیں ہوتی۔یہی نہیں میری ماں جس نے مجھے جنا جس کی آنکھوں کا میں تارا تھا، وہ باپ کے جس نے مجھے کاندھے پہ کھلایا جس کا میں سہارا تھا، وہ بہن کے جس نے میرے لاڈ اٹھائے جس کا میں محافظ تھا، وہ بھائی کے جس کا میں غرور تھا، وہ سہاگن کے جس نے میری خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا، وہ میرے بچے جنہیں اب کبھی باپ کا سایہ نصیب نہیں ہوگا یہ سب لوگ میرے انجام سے کبھی واقف نہیں ہوپاتے، انہیں کبھی خبر تک نہیں ہوپاتی کہ میں دشمن کی مٹی میں بنا کفن بنا غسل اور بناجنازے کے دفن ہوگیا۔
مجھے اپنوں کا کاندھا تک نصیب نہ ہوا۔ میرے گھروالے ساری زندگی اب اپنی نگاہیں دروازے پہ جمائے گزاردیں گے، دروازے کی ہر دستک پہ میرے اپنے چونک سے جاتے ہیں مگر میرا تو وجود ہی نہیں تو میں کہاں سے لوٹ کے آؤں گا۔مگر مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں،مجھے خوشی ہے کہ میں رہوں یا نہ رہوں مگر میرا وطن سلامت رہے، میری ماں کی گود اُجڑی لیکن میرے وطن کی لاکھوں ماؤں کی گود اب محفوظ رہے گی، میرے باپ کا سہارا تو چھن گیا لیکن اب میرا دشمن میرے وطن کے کسی بات سے اُسکا سہارا نہیں چھین پائے گا، میری سہاگن کا سہارا اُجڑا تو کیا ہو میرے ملک کی لاکھوں سہاگنوں کا سہاگ تو بچے گا، میرے بچے توباپ کی شفقت سے محروم ہوگئے لیکن میرے وطن کے لاکھوں بچے باپ کی شفقت سے محروم ہونے سے بچ جائیں گے۔
جانتے ہو میں کون ہوں؟
جی ہاں میں پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ہوں میں آئی ایس آئی ہوں.
اے وطن کے باسیو تم پوچھتے ہو کہاں ہے ISI؟
آؤ تمھیں آج میں یہ بتلاؤں کہ کہاں ہیں ہم
ہم موجود ہیں وطن کے کھیت کھلیانوں میں
ہم موجود ہیں وطن کے ٹوٹے مکانوں میں
ہم موجود ہیں وطن کے شہروں اور ویرانوں میں
ہم موجود ہیں وطن کے گلی کوچوں اور راہزاروں میں
ہم موجود ہیں بازاروں میں کارخانوں میں
بچوں کی خاطر کہیں سکولوں میں کالجوں میں
دیتیاسلام وجہاد کا درس مسجدوں اور مدرسوں میں
ہم موجود ہیں فقیروں میں، بازار کے ریڑھی بانوں میں
کہیں بن کے ساقی موجود ہیں میخانوں میں
کہیں مسجد،مندر،اور گرجا کے دربانوں میں
کہیں موجود ہیں بن کے پجاری بت خانوں میں
کہیں بن کے پادری موجود ہیں گرجا گاہوں میں
کہیں بن کے گورکن تمھارے شہرکے قبرستانوں میں، کہیں موجود ہندوستان کے شمشانوں میں
ہم موجود ہیں مسجدِ اقصٰی کی آذانوں میں
ہم موجود ہیں خانہِ خدا کے سائبانوں میں
ہم موجود ہیں روضئہِ رسول کے پروانوں میں
کہیں بوسنیا کے ویرانوں،کہیں چیچنیا کی چٹانوں میں
ہم نے تڑپا چھوڑا دشمنوں کوافغانستان کے پہاڑوں میں
ہم موجود ہیں کشمیر جنتِ نظیر کے سبزازاروں میں
ہم موجود ہیں جہادی میدانوں میں،جنگی ترانوں میں
ہم لڑے ہیں کفر سے عرب کے تپتے ریگستانوں میں
ہم لڑے ہیں کفر سے یورپ کے نخلستانوں میں
اے وطن کے باسیو ہم نے موڑے ہیں رُخ دریاؤں کے
ہم نے توڑے ہیں طلسم جھوٹے آقاؤں کے
ہم نے مروڑے ہیں ہاتھ دُنیاوی خداؤں کے
ہم دھاڑے ہیں کفر کے ایوانوں میں
ہم چنگھاڑے ہیں وقت کے شیطانوں پہ
ہم موجود ہیں ہندوستان کے چپے چپے کونے کونے میں
ہم موجود ہیں واشنگٹن اور اسرائیل کے ایوانوں میں
پر اب جو دینا گالی ہم کو تو ذرا یہ دھیان میں رکھنا
مائیں ہم بھی رکھتے ہیں بہنیں ہماری بھی ہیں موجود
منتظر ہے والد اور بچے ہمارے بھی ہماری دید کی خاطر
مگر کیا ہم نے سب یہ قرباں تمھاری عید کی خاطر
وہ ہمسفر میرا بہت گم سم سا رہتا ہے
خاموشی سے میرے لوٹ آنے کے وہ دن گنتا ہے
میری ماں کی نگاہیں بس دروازے کو تکتی ہیں
ہاتھوں میں لگائے مہندی، ڈولی میں بیٹھی بہنا بھائی کو ترستی ہے
تمھاری عید کی خاطر، تمھاری سعید کی خاطر
بیٹے کئی ماؤں کے ہیں قید دشمن کے قیدخانوں میں
زبانیں کھینچی جاتی ہیں، بدن کا گوشت نوچا جاتا ہے خوں و درد کا اک دریا یوں ہی تا ابد بہتا ہے
پر اس وطن کی خاطر ہم بخدا یہ بھی سہتے ہیں.
دشمن کے عقوبت خانوں میں بس یاد ماضی کیسہارے
اپنے گھربھر سے ملتا ہوں،تم کیا جانو درد یہ سارے
ہاں کبھی میں مل بھی جاتا ہوں، میں لوٹ آتا ہوں
کسی انجانی قبر کی صورت،کسی بھولی ہوئی خبر کی صورت
ماں میری نگاہیں راہ پہ تانے دنیا سے لوٹ جاتی ہے
بچے میرے شب کو بابا بابا کہہ کے رو کے سو جاتے ہیں
ہم سفر میرا منتظررہتے وہ ایک امید بھی چھوڑ دیتا ہے
بوڑھا باپ میرا پھر بیٹے کو سینے سیلگانے کا ارماں
اپنے سنگ لیے اس جہانِ فانی کو چھوڑ جاتا ہے.
کہ اب دینے دے پہلے ہم کو اب کوئی بھی گالی
تم اتنا یاد کرلینا
تم اتنا یاد کرلینا
وطن کے تمام گمنام سپاہیوں کو سلام..