جموں و کشمیر صدیوں سے مسلم اکثریتی خطہ ہے۔ برطانوی استعمار نے 1846 میں 75 لاکھ نانک شاہی روپے کے عیوض گلاب سنگھ ڈوگرا کو فروخت کردیا، جس کے بعد سے گلاب سنگھ مہاراجہ گلاب سنگھ کہلوانے لگا لیکن کشمیریوں نے شروع سے ہی برطانوی استعمار کے اس فیصلے کو قبول نہ کیا اور آزادی کے لیے جدوجہد شروع کردی، 1860 کی دہائی کے وسط میں جب کشمیریوں کی تحریک زور پکڑنے لگی تو برطانوی استعمار کی مدد سے طاقت کے بل پر اسے دبا دیا گیا۔
اس کے پیچھے انگریز سرکار کا مسلمانوں سے بغض شامل تھا کہ وہ مسلمانوں کو جنگ آزادی 1857 کے ذمہ دار سمجھتے تھے، دوسرے گلاب سنگھ نے جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی بھرپور مدد کی تھی۔ پھر یہ تحریک اٹھتی رہی، بزور طاقت دبائی جاتی رہی لیکن 1931 سے لیکر آج تک کشمیریوں کی تحریک مسلسل چلی آرہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کے جذبات دیکھتے ہوے انتہا پسند ہندووں کے ساتھ مل کر مسلم نسل کشی شروع کردی جسکے نتیجے میں جموں کا مسلم اکثریتی علاقہ فقط دو ہفتوں بعد اقلیتی علاقے میں بدل گیا۔
مورخین و محققین نے اس نسل کشی میں شہید ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ نفوس سے زائد بتائی ہے، جبکہ آٹھ لاکھ سے زائد ہجرت پہ مجبور ہوے۔ اس کے ردعمل میں پورے کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی تو بھارتی سرکار نے موقع غنیمت جان کر کشمیر پر قبضے کی نیت سے اور کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے بھارتی فوج داخل کردی جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ بھڑک اٹھی۔ بھارت کی جب خوب پٹائی ہونے لگی تو فوراً اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔
اقوام متحدہ میں سب سے پہلے یکم جنوری 1948 کو Kashmir Question کے عنوان سے ڈبیٹ ہوئی۔ کشمیر کے مسئلے پر سب سے پہلے 17 جنوری 1948 کو قرارداد نمبر 38 منظور ہوئی پھر 39 اور دونوں فریقین پاکستان و بھارت کا موقف سننے کے بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948 ءکو قرارداد نمبر 47 منظور کی جس میں کشمیر کا حل استصواب رائے سے نکالنا طے پایا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن UNCIP قائم ہوا، متعدد وفود اور کمشنر تعینات ہوے Gen Mcnaght, Sir Owen Dixon, F Graham و دیگر تعینات ہوتے رہے پے در پے قرارداد منظور ہوتی رہیں لیکن بھارتی ہٹ دھرمی بدستور قائم رہی۔
سر اوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی بدنیتی اور ڈھٹائی کو کھل کر بیان کیا اس کے علاوہ تقریباً ہر تجویز و پلان کو بھارت بہانے بازیوں اور مکاریوں سے مسترد کرتا رہا۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک بھارت UNCIP نے 13 اگست 1948 کو ایک قرارداد پاس کی جس کے مطابق مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی سے حل کیا جانا تھا، لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں 51, 80, 91, 96, 98 اور تمام اپیلوں و قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوے اپنی پپٹ اسمبلی سے منظوری لیکر بھارت میں شامل کرلیا جسے UNSC نے مسترد کردیا اور قرارداد نمبر 122 میں دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوے واضح کیا کہ ”کشمیر کا فیصلہ نہ مہاراجہ کرسکتا ہے نہ ہی کوئی اسمبلی، کشمیر کا فیصلہ صرف کشمیری اپنی مرضی سے کرسکتے ہیں اور اس کا طریقہ استصواب رائے ہے” ۔
لیکن بھارت کے عدم تعاون اور UN کی غیرسنجیدگی کی وجہ سے کسی قرارداد پہ عمل نہ ہوسکا، نتیجتاً مسئلہ کشمیر کی صورت دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت نے 1965 اور 1971 کی جنگ کی راہ ہموار کی۔ مسئلہ کشمیر پر 1948 سے 1971 تک 23 قراردادیں منظور ہوئیں، اگرچہ ان قراردادوں پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی و دیگر تنظیموں و اداروں نے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کی حمایت ضرور کی لیکن کسی طور بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی، جس طرح کیتھولک اکثریتی مشرقی تیمور کے مسئلے پر انڈونیشیا پر عملی پریشر ڈالا گیا اور عیسائی اکثریت جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کے لیے اقوام متحدہ نے عملی اقدام اٹھایا ،لیکن کشمیر پر کبھی اس طرح سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے 2017 ء میں UN کے ستترویں سیشن میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوے کہا کہ کوئی بھی کشمیر کو بھارت سے الگ نہیں کرسکتا، صریحاً ان تمام قراردادوں، ویانا کنوینشن اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ 5 اگست 2019 کو ہندوتوا سرکار نے عالمی قوانین و اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوے کشمیر کو بھارت میں شامل کرکے LOC کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرائے جانے کی کوشش کرتا رہا جس پر کشمیر سمیت پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن عالمی برادری زبانی کلامی باتوں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ رہی جوکہ خطے کے امن کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔
انڈونیشیا نے 1976 ءمیں مشرقی تیمور کو اپنا صوبہ قراردیا تو اقوام متحدہ نے اسے تسلیم نہ کیا کیونکہ وہاں معاملہ عیسائیوں کا تھا لیکن کشمیر کے معاملے میں محض زبانی کلامی باتوں سے کام لیا جارہا ہے۔ ابتک بھارت کے ظلم و جبر کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید، ہزاروں خواتین کی عصمت دری اور ہزاروں کشمیری لاپتہ ہیں، لیکن اس کے باوجود افسوس ہے کہ اقوام عالم کشمیریوں کو ہی دہشتگرد کہتی ہیں اس ضمن میں کشمیریوں کے حق کی آواز بلند کرنے والے حافظ سعید اور مسعود اظہر کو بھارت کی ایما پر دہشتگرد قرار دیا گیا جبکہ ان دونوں کی طرف سے پوری دنیا میں ایک کنکر بھی نہیں ماری گئی۔
بھارتی جاسوس ایجنسی را خود ہی دہشتگردی کرواتی ہے اور الزام دوسروں پر تھونپ دیتی ہے۔ صدر بل کلنٹن کے دورے کے موقع پر بھارت نے متعدد بےگناہوں کو شہید کرکے اس کا الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا جو بعد میں سامنے آیا کہ یہ خود بھارتی آرمی کے کرتوت تھے۔ آج سات دہائیوں بعد کشمیر کا مسئلہ پہلے روز کی پوزیشن پر ہی موجود ہے بھارتی ظلم و جبر کی وجہ سے لاکھوں کشمیری دنیا بھر کے ممالک میں پناہ لینے پہ مجبور ہیں، بھارتی سرکار اپنے ظلم و جبر کو چھپانے کے لیے کسی کو کشمیر تک رسائی دینے کے لیے تیار نہیں۔
برطانوی ممبر پارلیمنٹ گراہم کیساتھ دہلی ایئرپورٹ پر کیا جانے والا غیرمہذب سلوک بھارت کا اصلی چہرہ ہے، مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ابتک چار جنگیں ہوچکی ہیں اور غالب امکان ہے کہ ایک بھیانک ایٹمی جنگ سر پر کھڑی ہے۔ اگر اقوام عالم نے اس ضمن میں اب بھی کوئی ٹھوس عملی قدم نہ اٹھایا تو پھر دنیا دیکھ لے گی کہ جنگ ہوتی کیا ہے، ممکن ہے کہ پاک بھارت جنگ جنگ عظیم دوم سے بھی ہولناک اور تباہی خیز ثابت ہو۔