بچوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم غیر سرکاری تنظیم’’ ساحل‘‘ نے اپریل 2018ء میں ایک رپورٹ میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد ان کے قتل کی وارداتوں پر شدید تشویش کااظہارکرتے ہوئے بتایاکہ’’ ساحل‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر روز 9 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سال 2017 ء میں بچوں کے اغوا کے 1039 واقعات سامنے آئے جبکہ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 467 لڑکوں کے ساتھ ریپ کے 366 زیادتی کی کوشش کے 206 لڑکوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کے 158 واقعات رپورٹ ہوئے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں جنسی زیادتی کے اکثرواقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔زیادہ ترلوگ ایسے معاملات کوغیرت کامسئلہ بناکر شرمندگی سے بچنے کیلئے خاموشی اختیارکرتے ہیں یعنی جنسی زیادتی کے کیس بہت ہی کم رپورٹ ہوتے ہیں۔چندروزقبل پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کی طرف سے ریپ کے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی قرار داد پیش کی گئی۔
قومی اسمبلی نے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیاجس کے بعد کچھ طبقات نے اس قراردادپرتنقیدشروع کردی۔درندوں کوسرعام پھانسی کی مخالفت کرنے والے بتائیں کہ جنسی درندے ہماری تین،چار،پانچ سال کی معصوم کلیوں اورپھولوں کوبے دردی سے مسل دیں،جنسی زیادتی،تشددکانشانہ بنائیں اورپھرقتل کرکے کسی کچرے کے ڈھیریاویرانے میں پھینک دیں۔ہمارے معصوم بچے خبریں دیکھ سن کرسہم جائیں۔ہم اپنے ننھے ننھے معصوم بچوں کوحصول تعلیم یاکھیل کودکیلئے گھرسے نہ نکلنے دیں۔
معصوم بچے ہم سے سوال کریں کہ جنسی زیادتی کیاہوتی ہے؟جنسی تشددکیاہوتاہے؟انسان ہی انسان کے بچوں کوکیوں قتل کرکے کچرے کے ڈھیرپرسرعام پھینک دیتے ہیں؟تووالدین کیاجواب دیں؟کیایہ انسان نمادرندے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،تشدداورقتل آئین وقانون یاشریعت کے مطابق کرتے ہیں؟ہم اپنے تین،چارسال کے معصوم بچے،بچیوں کوکس طرح بتائیں کہ جنسی زیادتی کیاہوتی ہے اورانسان درندے کیسے بن جاتے ہیں۔کیااتنی چھوٹی عمرمیں بچوں کوجنسی معاملات سمجھائے جاسکتے ہیں؟معصوم بیٹیوں اوربیٹوں کوبے دردی کے ساتھ جنسی زیادتی ،تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والے توکسی آئین،قانون یاشریعت کے پابندنہیں۔
ہرروزکتنی معصوم کلیاں اورپھول مسل دیئے جاتے ہیں۔ایسے درندوں کوسرعام پھانسی دینے کی مخالفت کرنے والا آئین،قانون توکسی جنگل میں بھی نافذہونے کے لائق نہیں ہوسکتا۔ سرعام پھانسی یانیب قانون کوغیرشرعی قراردینے والے سودکے معاملے پرکیوں خاموش رہتے ہیں؟ تمام مکاتب فکرکے علماء ہمیں بتائیں کہ کیاسودکسی صورت بھی کسی بھی حالت میں حلال ہوسکتاہے؟ہرگزنہیں سودسخت حرام اورناجائزہے یہاں تک کہ سودکالین دین کرنے والوں کوتوبہ نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کیلئے تیاررہنے کے احکامات ہیں۔
کس قدرتکلیف دہ بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں اوربچوں کے ساتھ جنسی زیادتی،تشدداورقتل جیسے سنگین جرم کے مرتکب مجرموں کوسرعام پھانسی کی سزاکے ذکرپرآئین،قانون اورشریعت کابہانہ بناکرمخالفت کی جاتی ہے۔جنسی درندوں کوسرعام پھانسے دینے کے قانون کی مخالفت کرنے والے اپنے آپ کوان جرائم کے متاثرین کی جگہ رکھ کرکیوں نہیں سوچتے؟شریعت یعنی دین اسلام کانظام توجرم کے مطابق سخت سزاکاحکم دیتاہے یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ،ہاتھ کے بدلے ہاتھ،ٹانگ کے بدلے ٹانگ اورجان کے بدلے جان،معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی قتل سے بھی بڑاجرم ہے جس کے بدلے سزاموت یاسرعام پھانسی بھی بہت کم سزاہے،سرعام پھانسی دے کرایسے درندوں کونشان عبرت بنایاجائے تولوگ نصیحت پکڑیں گے اوربڑی حدتک ایسے جرائم کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔
ایسے مقدمات میں ہرذمہ دارادارے اوراہلکاران کوکسی صورت کسی قسم کی جانبداری یاکمزوری کاکسی قیمت پر مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جنسی درندوں کے ساتھ انسانی سلوک کیسے کیاجاسکتاہے؟انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں۔ایساظلم توجانوربھی نہیں کرتے توپھرجنسی درندوں کاانسانوںمیں شمارکیوں؟ایسے جانوروں پرتوسرعام بھوکے کتے چھوڑدینے چاہییں اورساتھ ایسے معاشرتی نظام کوبھی پھانسی دے دینی چاہیے، جوزناآسان اورنکاح کومشکل ترین بناچکاہے۔بچے،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادی،تشدد اورقتل کے مرتکب مجرمان کوسرعام پھانسی کی سزادینے کے مخالفین یاد رکھیں کہ یہ جنسی درندے ہرگزانسان نہیں ہوسکتے لہٰذاانسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں،جہاں تک بات ہے آئین کی توآئین تواوربھی بہت کچھ کہتاہے۔