ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا،
“جب امانت ضائع کی جانے لگے تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو”۔
صحابی نے دریافت کیا کہ امانت کیسے ضائع کی جائے گی یارسول اللہ؟
آپؐ نے فرمایا، ” جب معاملات نااہلوں کے سپرد کیے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو”۔
( رواہ البخاری)
ہم اکثر سنتے یاپڑھتے رہتے ہیں کہ قیامت قریب ہے اور قیامت کی اکثر نشانیاں پوری ہوچکی ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں ان چند بڑی نشانیوں میں سے ایک کا ذکر ہے۔ اس حدیث میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں انتظار کرنے کو کہا جارہا ہے اور انتظار اسی کا ہوتا ہے جو واقع ہونے والا ہو یا بہت قریب ہو۔
جو لوگ قلب سلیم رکھتے ہیں ،وہ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ اس حدیث کے سہی معنوں میں مصداق کون ہیں؟ ویسے تو یہ حدیث ہر اس شخص پر لاگو ہوتی ہے جو ایسی ذمہ داری پر مامور کیا گیا ہو،جس کا وہ اہل نہیں لیکن اس کے زمرے میں ہمارے حکمران بالخصوص آتے ہیں۔اور صرف ہمارے حکمران ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اگر دیکھا جائے تو حقیقت منکشف ہے کہ جن کے ہاتھ میں دنیا کے معاملات ہیں یا جن کے پاس ویٹو پاور ہے ، انہوں نے دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے کتنا عدل و قسط قائم کیا ہے؟
لیکن اس ذمہ داری کا اہل کون ہے؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ عدالتیں ؟ ہماری عدالتیں تو خود نااہل ہیں، وہ کیا کسی کوایک ذمہ داری کا اہل سمجھیں گی؟کتنے ہی صدور اور وزرائے اعظم ایسے گزرے جن کے جرائم سنگین ترین تھے اور عوام اور پوری دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھے، لیکن ہماری عدالتوں نے قوانین چونکہ مغربی طرزپر بنائے ہیں ،اس لیے وہ حکمران یا وزیر اعظم کو عدالت میں مدعی کے برابر کھڑا نہیں کرسکتیں ،جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک یہودی مدعی کے ساتھ لاکھڑا کیا اورحضر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف اس وجہ سے کیس ہار گئے کیونکہ ان کے پاس گواہوں میں غلام تھا، جس کی شہادت اسلام میں قبول نہیں۔ہماری عدالتیں آزاد بھی نہیں ۔ داخلی و خارجی اعتبار سے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہے ،جس میں سب سے بڑھ کر ہمارے خفیہ ادارے ہیں۔یا پھر سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں گی ، جواقتدارکی لالچ ، اپنے مفاد( جس کیلئے وہ عوام اور اپنی ضمیر سے غداری کرنے میں دریغ نہیں کرتے) اور حزب اختلاف پر تنقید (جو اکثر بہتان اور تہمت کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے) سے آگے بڑھ کر عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کرنا گوارا نہیں کرتے؟ یا خود عوام الناس جو چائے کے ہوٹلوں میں بیٹھ کر عالم دین، تنقید نگار، تجزیہ کار اور مفتی بننے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن معاشرے کی برائیوں کو اپنے سینے سے الگ کرنا نہیں چاہتے اور اپنے اعمال سے اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر حکمرانوں کو بددعا بھی دیتے ہیں۔
ایک حدیث میں رسولؐ کا ارشاد ہے کہ:
حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا”جب میرے (اکثر ) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بددعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں”۔ (مشکوٰۃ)
یا پھر کسی کی اہلیت کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہماری وہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں،جن کی اخلاقی حالت اس درجے تک گر چکی ہے کہ پاور میں آنے کیلئے وہ سیکیولر طبقے سے اتحاد کرتے ہوئے چونکتیں نہیں، اور سیکولر طبقہ بھی وہ جو سود کو حلال سمجھتا ہے، بےحیائی کو پسند کرتا ہے اور شریعت کے اصول و ضوابط سے منحرف ہے یا اس میں ترمیم چاہتا ہےیا پھر پارلیمنٹ اور اسمبلی جس میں شراب پر پابندی کا بل پیش کیا جاتا ہے، لیکن مسترد کرکے مسلمان عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ پیے یا نہ پیے اور پھر مدینے کی ریاست کی بات کی جاتی ہےجہاں نہ سود کو ختم کرنے نہ شراب خانوں کو بند اور نہ فحش اڈوں کو ختم کرنے کوشش کی گئی۔
تو فیصلہ آخر کر ے گا ؟کون جو ایک ذمہ دار شخص کی خصوصیات ہم پر واضح کرے اور ہم پھر انہی معیارات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بلا خوف و خطر اپنے معاملات ان کے سپرد کریں؟۔
یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف قرآن و احادیث کو ہے۔نہ ہی سیاسی لیڈروں کو، نہ ہی اسمبلیوں اور پالیمنٹ کو، نہ ہی افواج اور عدالتوں کو اور نہ ہی عوام کو۔
عوام کا ایک طبقہ فلاں سیاسی لیڈر کو حکومت کا اہل سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس پر طرح طرح کے الزام ثابت کررہا ہوتا ہے ،سیاسی لیڈران جوایک دوسرے سے اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے پر ذاتی حملے ، نازیبا الفاظ اور دھمکیاں تک دے رہے ہوتے ہیں ، یکساں مفاد نظر آنے کی صورت میں حکومت کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ کیا ان سے توقع رکھی جائے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری بخوبی احسن انجام دیں گے؟ کیا اسمبلیوں اور پارلیمنٹ سے توقع رکھی جائےجو چاہے تو شریعت کے خلاف تمام امور کے حق میں قراردادیں منظور کرسکتی ہے اور مذہبی سیاسی جماعتیں بھی جو حکومت کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانے میں جھوٹ بول کر اپنے آپ کو اللہ کی لعنت کا مستحق بناتی ہیں اورعدالتوں کا تو ذکر تو اپر ہو ہی چکا ہے۔
قرآن و حدیث میں سب کچھ واضح کیا جاچکا ہے۔ہم کو وہ رہنما اصول بتائے جا چکے ہیں کہ حکمران کا انتخاب کرنے والے افراد کا کردارکیا ہونا چاہیے ؟پھر یہ لوگ قرآن و احادیث میں بتائی گئی شرائط پرایک شخص کو جانچے اورحکومت کی باگ اس کے ہاتھ میں دیں۔ وہ وجوہات بھی بیان کردی گئیں ہیں جن سے ایک ظالم سنگدل حکمران ہم پر مسلط کردیا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ، “تم میں جو سب سے زیادہ ذلیل ہوگا، وہی تمہارا حکمران ہوگا”
قرآن میں ارشاد ہے،
”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔(الروم: 41)
لیکن افسوس اس بات کا کہ نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتیں،عدالتیں، عوام کی اکثریت اوردیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں اس سے صرف نظر کرتے آئے، جس کا نتیجہ یہ ہے ہر آنے والا صدر یا وزیر اعظم یا دیگر وزرائے اعلیٰ کے دامن پر کسی نہ کسی جرم کا داغ لگا ہوا ہوتا ہے، چاہے وہ اخلاقیات کے حوالے سے ہو یا قانون کے حوالے سے، ملک میں قتل و غارت اور دیگر سنگین جرائم کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہی، انتشار اور خوف کی فضا میں بھی اضافہ ہوتا ہی گیا اور حکمرانوں اور عوام میں عدم اعتمادی کی کیفیت بدستور قائم رہی۔
ویسے تو پاکستان جب سے آزاد ہوا ہے، آٹے میں نمک کےبرابر ایسے حکمران ہم کو نصیب ہوئے جو حکومت کے اہل تھے ،لیکن ان کا دورانیہ کم تھا یا کم کر دیا گیا اور لیاقت علی خان کو تو قتل ہی کردیا گیا۔ باقی حکمرانوں کا ذکر کرنا وقت کا زیاں ہے کیونکہ ان کا کردار پوری دنیا کے سامنے ہے۔ لیکن اگر ہم آج کے پاکستان کی بات کریں تو اس وقت برسراقتدار عمران خان ہیں۔
عمران خان نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے اسلام کے نام کا استعمال کیا، مدینہ کی ریاست بنانے کا بھروسہ دلایا۔ اپنے انٹرویوز میں نبیؐ کی سنتوں کا ذکر کیااور ان کے رہنما اصولوں کو اپنانے کا دعویٰ کیا ،لیکن عوام ٹھہری سدا کی بیوقوف، عوام نے کیسے یقین کرلیا کہ ایسا شخص جو اپنے دھرنوں اور اجلاسوں میں مرد و زن کے مخلوط ماحول کو روا رکھتا ہو،جس کے نتیجے میں کیا کیا بے حیائی اور خواتین کا استحصال عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہ شخص کیسے مدینہ کی ریاست بنا سکتا ہے؟ جو شخص اپنے معاون خصوصی کو برہنہ ٹانگیں رکھنے والی انگریز گلوکارا کے ساتھ گلے لگاتے ہوئے تصویریں کھنچوانے کی اجازت دیتا ہو، وہ کیسے ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرسکتا ہے ؟ جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنا عام بات سمجھتا اور سود خوری کو معاشرے میں عام رکھتا ہے ،وہ کیسے مدینہ کی ریاست بنائے گا؟ بے شمار جرم ہیں جو عمران خان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومت کیلئے نااہل ثابت کرتے ہیں، لیکن قصور وار پھر بھی عوام ہی ہے جو خود معاشرے میں حرام کام کرتی بھی ہے، کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتی ہے اور اس کی پاداش میں جب عمران خان جیسے حکمران مسلط ہوتے ہیں تو عوام اپنے آپ کو سب سے زیادہ مظلوم گردانتی ہے۔
عوام سمجھ نہیں پاتی کہ حکمران اللہ کا عذاب ہےجو ان کی ہی بد اعمالیوں کی پاداش میں ان کو دیا جارہا ہے۔عوام جب تک اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرے گی۔ معاشرے میں ہونے والے حرام کام اور بد فعلوں کا سد باب کرنے کیلئے متحد نہیں ہوگی اس وقت تک ہمارےصدر، وزیر اعظم، اور دیگر وزرائے اعلیٰ ذلیل ہی رہیں گےاور ان کی ذلالت کی نحوست ہم پر بھی پڑتی رہے گی۔