حکومت کو بھٹکائے رکھنے کی حکمت عملی

عاقل منہ کھولنے سے پہلے سوچتا ہے اور جاہل منہ کھولنے کے بعد ، دونوں میں قدرت نے معمولی سا فرق رکھا یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک لکیرکھینچ رکھی ہے ۔سال ہا سال سے ڈرے سہمے اور بھوک کے مارے لوگ بھلا عقل اور جہل میں کیا فرق بتا سکتے ہیں ، جن کی سوچوں پر تو انکے پیدا ہونے سے پہلے ہی کسی طاقت ور کی غلامی کا طوق ڈالا جاچکا ہوتا ہے ۔

یہاں ایک بار پھر وہ ہاتھی کے بچے میں زنجیر باندھنے کی مثال یاد آرہی ہے کہ زنجیر کھلی ہو یا بندھی ہاتھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا ،کیوں کہ جب اس نے بہت کوشش کی ہوتی ہے اس وقت زنجیر بندھی ہوتی ہے اور پھر تاحیات وہ اپنے آپ کو بندھا ہو اہی سمجھتا رہتا ہے پھر کبھی کوشش ہی نہیں کرتا۔ ہم ساری دنیا میں بطور جذباتی قوم پہچانے جاتے ہیں ،کرکٹ سے لے کر کسی حادثے کو لے لیجیے ایسے نکلتے ہیں کہ جیسے ہم سے زیادہ کوئی مخلص اور سمجھدار ہے ہی نہیںاور جیسے ہی حالات بہتر ہوئے پھر وہی تو کون اور میں کون۔

شاید ہم اندر سے ایک دوسرے سے مخلص ہیں ہم حق اور سچ سے بھی مخلص ہیں لیکن ہمیں زیادہ دیرخلوص کیساتھ رہنے نہیں دیا جا تا بالکل ایسے ہی جیسے مریض کی حالت کچھ بہتر ہوتی ہے تو اسے فوراً عام وارڈ میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت زیادہ علالت کے باعث اچھے بھلے صحت مند اور طاقت ور انسان کو بھی بہتری کیلیے اچھا خاصہ وقت درکار ہوتا ہے پھر بھی وہ اپنی اصل حالت میں نہیں آپاتا۔

سعادت حسن منٹو نے خوب قوم کے رہنماکے اوصاف واضح کیے۔ لکھتے ہیں.. یاد رکھئے قوم کی خدمت وزنی معدے کیساتھ شکم سیر لوگ کبھی نہیں کرسکیں گے،قوم اور وطن کی قیادت وہی کرسکتے ہیں جو سخت زمین پر سونے کے عادی ہیں اور جنکے جسم نرم و نازک پوشاک سے نا آشنا ہیں۔اس بات سے قطع نظر کہ منٹو ہمارے معاشرے میں کس نظر سے دیکھے جاتے تھے یا انکی تحریریں ہمیشہ تنقید کی زد میں رہیں، لیکن قوم کی رہنمائی کیلیے انکا فہم بالکل اسلامی طرز کا دیکھائی دیتا ہے، گوکہ دور حاضر میں منٹو اور عصمت چغتائی کی طرز سے لکھنے والے کہیں آگے جا چکے ہیں، بلکہ اب تو عملی طور پر بھی بہت کچھ منظر عام ہوچکا ہے۔

ملک میں تعلیم کی شرح اشاریوں میں بڑھ رہی ہے لیکن فلسفیوں ، عالموں اور ادیبوں کی شرح کو ناپنا مشکل ہوگیا ہے ۔ سماجی میڈیا نے ہمیں ایسے بہت ذرائع فراہم کررکھے ہیں کہ جہاں ہم اپنی اپنی مرضی کے رجحانات و نظریات منظر عام پر لے آئیں، یہ اور بات کہ کتنے لوگ اس سے متفق ہوتے ہیں لیکن سوچنے کے زاوئیے پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں اور کہیں کہیں تیر نشانے پر لگ ہی جاتا ہے ۔ اگر یہ لکھا جائے کہ ہم دوسروں کی اصلاح اپنی مرضی سے کرنے کے چکر میں ایک دوسرے کو بھٹکانے میں لگے ہوئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔اتنے شتر بے مہار ذرائع کے دور میں اگر منٹو ہوتے توسوچیے بھلا کیا ہوتے ؟

بہت ہی ہلکے پھلکے لہجے میں اپنا بھرپور مدعا بیان کرنے کی صلاحیت رکھنے والے قابل احترام مشتاق احمد یوسفی صاحب (مرحوم )کہتے ہیں کہ آپ سیاست میں یا پھر سائیکل پر کہیں بھی نکل جائیں ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملے گی۔اب یہ وضاحت نہیں ملتی کہ ہواآپ کے مخالف ہوتی ہے یا آپ ہوا کے مخالف۔ پچھلے بیس تیس سالوں میں درپردہ ہوا سیاست کیلیے موافق رہی اورباریوں پر کام چلتا رہا ۔ یوں تو بارہا سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے چہرے نہیں نظام کو بدلو کے نعرے لگائے لیکن کبھی بھی عملی طور پر اسکے لیے جدوجہد نہیں کی، یا شاید مسلط شدہ نظام کی پائیداری نے ہر نعرے کو نعرے تک ہی محدود رہنے دیا۔ پہلی بار ملک میں نظام کی تبدیلی کیلیے کوشش کے نام پر حکومت تشکیل پائی اور بڑوں بڑوں کی نیندیں حرام ہوتی دیکھی گئیں لیکن پس پردہ کچھ لوگ پھر بھی چین کی بانسری بجاتے رہے ۔

حالات کی سنگینی نے یہ تو سمجھایا کہ کچھ تو ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ بد لحاظی اور بدتمیزی کو فروغ دیا گیا عوامی نمائندوں کی کردار کشی کی گئی ، خصوصی طور پر سیاسی میدان میں بدعنوانوں کا ایک جم غفیر تھا جو اس بدعنوانی کو ہی صحیح طرز سیاست سمجھ بیٹھا تھا۔ اب جب انہیں بتایا گیا کہ یہ تو بدعنوانی ہے ملک و قوم کیساتھ غداری ہے تو انہوں نے حکومت وقت اور اسمیں موجود افراد کو بدتمیز اور بد لحاظ جیسے القابات سے نوازنا شروع کردیا ۔ پچھلے ادوار میں دنیا جہان سے قرضے لیے جاتے رہے اور اداروں کو فائدہ نقصان جانچےبغیر دیے جاتے رہے، جس کی وجہ سے ادارے معذور ہوتے چلے گئے ، اکثر تو قریب المرگ ہوچکے ہیں جن میں اول نمبر پر پاکستان کا سب سے فائدہ مند ادارہ پاکستان اسٹیل مل ہے جو تقریباً تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے ۔

دوسرے قابل ذکر اداروں میں پاکستا ن ریلوے اور پاکستان بین الاقوامی ائیر لائن ہیں۔ ان اداروں میں بے دریغ سیاسی بھرتیاں کی جاتی رہیں اور اپنی واہ واہ کرانے کیلیے اداروں کو تباہی کی جانب دھکیلا جاتا رہا، اس کی وجہ سے بدعنوانی کا بازار بھی گرم ہوتا رہا، نوکریاں باقاعدہ بیچی جاتی رہیں، سیاسی کارکن ہونے کی وجہ سے تنخواہیں بغیر کام کیے لیتے رہے، ملک میں بہت سارے ادارے حکومتی امدادلیتے رہے ۔ یہ کہنا کہ حکومت کو جو معیشت ملی وہ ایسی ہی تھی جیسی کہ دیکھائی دے رہی ہے تو یہ غلط ہے ، ہمیں یہ تسلیم کرنے سے پہلے کہ موجودہ حکومت کی حکمت ِ عملیوں کی بدولت معاشی بدحالی روز بروز بڑھتی جارہی ہے جاننا پڑے گا کہ ایسے کون سے اقدامات نہیں کئے گئے یا پھر کئے گئے ہیں کہ مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے ۔

جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں اداروں کی امداد بند کرنے کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ بغیر امداد کے کوئی ادارہ نہیں چل سکتا ( ہم تو اسے یوں سمجھتے ہیں کہ بغیر بدعنوانی کے کوئی ادارہ نہیں چل سکتا )۔ لفظ مافیا (قابضین) کا استعمال بھی تواتر سے کیا جارہا ہے جہاں دیکھیں ،حکومتی حلقوں میں تو قابضین کا ہی تذکرہ سنائی دے رہاہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہوتی دیکھائی دے رہی ہے کہ ایسے ہی کچھ لوگ حکومت کا بھی حصہ بنے ہوئے ہیں اور وہی سب کچھ اپنے طور سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں جیساکہ بدعنوان کرتے رہے ہیں۔ حکومت کی کارگردی پر ایسے ہی لوگ اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو گاہے بگاہے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

ہم دنیا کے نظم و ضبط سے تو بہت متاثر ہیں لیکن اپنے دین میں دئیے گئے نظم و ضبط کے فلفسے سے بالکل نا آشنا دیکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے اگر حکومت کو اسلیے منتخب کیا ہے کہ وہ صرف ہمیں گھربیٹھ کر تین وقت کا کھانا کھلادے تو وہ حکومت اور ذیلی ادارے بشمول مخیر حضرات یہ کام تندہی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جہاں انصاف ہو کسی امیر اور کسی غریب کو ملنے والا انصاف مختلف نا ہو، کسی غریب کو کسی امیر سے زیادہ محترم نا سمجھا جاتا ہو، سب کو اپنے حقوق سے آگاہی ہو اور عزت نفس سے سب شناساہوں۔ ایک سوال یہ بھی کہ اگر وہ سب کچھ ٹھیک تھا جو پہلے سے اس ملک میں چل رہا تھا ،تو پاکستان اتنا مقروض کیوں ہوا ، کیوں پاکستان وہاں نہیں پہنچ سکا جہاں پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک پہنچ گئے؟

موجودہ حکومت نے اداروں کی سرکاری امداد (سبسڈی ) بند کردی ۔حکومت سارے چور دروازے بند کرنے کا قصد کیے ایوان میں داخل ہوئی ہے ، لیکن کچھ داخلی کالی بھیڑیں حکومت کی کارگردگی پر بھرپور طرح سے اثر انداز ہونے میں مصروف عمل ہیں اور مخالفین سے مل کر بحران پر بحران کھڑے کیے جارہی ہیں اور نظام میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی کیے بغیر وقت گزارنے کی حکمت عملی پر گامزن کرنے کی بھرپور جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس لکیر کو عبور ہونے سے بچیں اور بچائیں کہ جسے ستر سالوں سے عبور کرتے چلے آرہے ہیں۔ قوم کو قوم بننے کیلیے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اگر ہم واقعی قوم بننے کیلیے تیار ہوچکے ہیں تو اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں اور اپنے جذبات پر قابو کو یقینی بنائیں، اگر ہم نے اب بھی اپنے گروی رکھے جذبات پر قابو نا پایا تو پھر ہم ناتو کبھی قوم بن سکیں گے اور نا ہی کسی مافیا سے ملک کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آزاد کراسکیں گے۔مضمون کے اختتام پر کالی بھیڑوں کے نام اقبال کا پیغام آگہی دیتا چلوں کہ ؎

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہوکرگسوں میں      اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شہبازی

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں