چند سعید روحیں ابھی بھی تھیں مکّہ میں کہ جہاں اب خانہ خدا تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن تھا۔بنوتمیم کا یہ صالح جوان جس کا اصل نام تو عبداللہ اور کنیت ابو بکر تھی اپنی صالح طبیعت کی وجہ سے مکّہ میں ایک مقام رکھتاتھا۔ بت پرستی سے نفرت تھی معاشرے میں پھیلے ہوئے جہالت کے رسم ورواج بھی ایک آنکھ نہ بھاتے تھے ۔ایسے میں ایک اور جوان جو کہ صالح تھا اور اہل مکّہ کی آنکھ کا تارا تھا ہر بڑا ،چھوٹا اسکی عزت کرتا ۔اپنی مشکل کو حل کرانے اس کے پاس آتا گویا وہ مرجع خلائق تھا ۔ پورے مکّے میں اس نوجوان کو صادق اور امین کہ کر پکارا جاتا۔
اس پاک باز جوان کا تعارف ابوبکر کو ملا چند ملاقاتوں کے بعد یہ رشتہ مضبوط دوستی میں تبدیل ہوگیا۔محبتیں پروان چڑھیں پھر حدیث مبارکہ ہے کہ بنی مہربانﷺنے فرمایاکہ” دوست اپنے دوست کے دین پر ہوتاہے پس تمہارا ہر آدمی یہ دیکھے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کررہاہےحضرت ابو بکر نے کیا خوب دوست کا انتخاب کیا اور کیا خوب دوستی نبھائی۔جیسے ہی اسلام کےسورج کی کرنیں غار حرا سے باہر نمودار ہوئیں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حوالے کردیا۔ پھر زندگی کے اندر انقلاب برپا ہوچکا تھا۔
صبح وشام بس صحبت نبویﷺ سے اپنی آنکھیں ٹھندی کرتے ۔جضور ﷺ جب معراج سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے واقعہ لوگوں کو سنایا اس وقت حضرت ابوبکر وہاں موجود نہیں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے یہ واقعہ سنا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھاگے بھاگے گئے اور واقعہ کہ سنایا کہ تمہارے صاحب نے یہ کہا کہ رات کو مجھے بیت المقدس لے جایا گیا ۔ جنت اور جہنم کی سیرکرائی گئی اور صبح سے پہلے واپس پہنچا دیا گیا ۔ تم بتاؤ اے ابو بکر! کیا یہ ممکن ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اگر یہ بات محمد ﷺ نے فرمائی ہے تو آپﷺ نےسچ فرمایا ہے ۔ یہ بات سن کر ابو جہل اور اس کے ساتھی اپنا سا منہ لے کر واپس ہوئے مگر ؎
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدّعی کے واسط دارو سن کہاں
دربار نبویﷺ سے اس واقعہ کی تصدیق کی وجہ سے صدیق کا لقب عطا ہوا اس کے بعد یہ سفر آگے بڑھا اور پھر آپ کو عتیق کا لقب بھی لب مصطفٰے سے ملا ۔ آپ سابقون الااوّلون ہیں ۔ نبی مہربان ﷺ آپ سے بے حد محبت فرماتے ۔ ہر سفر میں ساتھ ہوتے ہر معرکہ میں آپ کو حضورﷺ ساتھ رکھتے ۔کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر طرف سے جگمگا رہی ہوتی ہیں اور اس سے انسانیت فیض یاب ہوتی ہے ۔ حضرت ابوبکرصدیق بھی انہی شخصیتوں میں سے ایک ہیں اسی لیے حدیث میں آتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ہی وہ واحد شخص ہونگے جو کہ جنت کے ہر دروازے سے داخل ہونگے ۔
صحابہ کرام کے درمیان نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ایک دوڑ لگی رہتی تھی اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔جب آنحضورﷺ کو خبر ملی کہ رومی اپنی سرحدوں پر فوجیں جمع کررہے ہیں اور ان کے ارادے خطرناک ہیں تو آنحضور ﷺ نے تیاری کا حکم جاری فرمایا اور انفاق فی سبیل اللہ کی اپیل کی پھر کیا تھا ایک دوڑ شروع ہوئی کہ ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں اور زیادہ سے زیادہ مال اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔حضرت عمر نے تمام گھر کا سامان آدھا کیا اور دل میں یہ خیال آیا کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق پر بازی لے جاؤں گا انہوں نے گھر کا آدھا تمام سامان لاکر حضور ؐ کے سامنے ڈھیر کردیا حضور ؐ سے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ آدھا دسامان گھر والوں کے لیے رکھ چھوڑاہے ۔
ادھر حضر ت ابوبکر صدیق اپنے گھر کا سارا سامان باندھ رہے تھے اور دیوار میں ہاتھ پھر رہے تھے ۔اہلیہ نے پوچھا کہ یہ کیا کررہے ہیں ؟ تو آ پ نے جواب دیا کہ تم عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ سوئی دیوار میں لگا دیتی ہو وہ تلاش کررہاہوں ۔ جب دربار رسالت ﷺ میں اپنا سامان لےکر پہنچے تو اس حال میں پہنچے کہ ٹاٹ سے جسم کو ڈھانپ رکھا تھا اور ببول کے کانٹوں سے بٹن کاکام لیاتھا۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ اے ابوبکر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ ا ہے ؟ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام چھوڑ آیا ہوں ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور حضورﷺ سے فرمایا کہ اللہ نے ابوبکر کو سلام کہا ہے ۔اور جو ٹاٹ کا لباس ابوبکر نے پہنا ہے آج تمام فرشتوں کو اللہ نے یہی لباس پہنا یا ہے ۔
جب اس بات کی اطلاع حضورؐ نے ابوبکر کو دی تو اس راہ وفاکے ساتھی کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے ۔ یہ آنسوں خوشی کے تھے جو کہ آپ کے رخساروں سے ڈھلک رہے تھےدل پر ایک سکینت نازل ہورہی تھی ۔ارے آج پھر بازی حضرت ابوبکر یار غار افضل البشر بعد انبیاء کے ہاتھ رہی ۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہوں لگادو ڈر کیسا؟
گر جیت گئے تو کیا کہنے ہارے بھی تو بازی مات نہیں
حضور ﷺ کی حیات طیّبہ میں تو آپ نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کیا مگرآنحضورﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپ کا احسان امّت پر رہا کہ جب آپ نے منکرین زکواۃ کے خلاف مہم جوئی کی اور اسلام کو ایک بہت بڑے نقصان سے بچایا ۔ آپ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے ۔
جب خلیفہ بنایا گیا تو اگلے دن آپ اپنا کپڑوں کی گٹھری کندھے پر اٹھا ئے بازار کی طرف جانے لگے تو پوچھا گیا کہ آپ کہا ں جارہے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ بازار ۔۔ تو کہاگیا کہ آپ بازار کپڑے بیچنے جائینگےتو خلافت کی ذمّہ داریاں کیسے ادا کریں گے ؟ حضرت ابوبکر نےجواب دیا کہ اگر میں کپڑے نہیں بیچوں گا تو اپنے بیوی بچوں کی کفالت کیسے کروں گا؟ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جتنی رقم ایک یتیم کے مال کی رکھوالی کی اجرت بنتی ہے اتنی رقم خلیفہ کو دی جائے گی ۔ آج کے دور کے حکمراں طبقہ کے لیے اس میں بڑی اہم بات ہے کہ حکمران کی زندگی کیسی ہونی چاہیئے ۔ جب کہ وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان بھی امّت کی نگاہوں سے گزرا کہ میری تنخواہ دو لاکھ روپے ہے اور اس میں میرا گزارا نہیں ہوتا ۔یہ اتنا فرق طرز حکمرانی میں کیسے رونما ہوا؟ آج کا حکمران بھی مدینے کی ریاست بنانے کا دعوے دار ہے۔وہ سچٗا خادم مدینے کی ریاست کا جو رات کی تاریکی میں اپنی رعایا کی خبر گیری میں مصروف ہوتا اور صبح کی نماز پڑھاکر اپنے گھر جاتا ۔آج کے حکمران کو آٹے کی قلّت کی خبر نہیں ۔ جانے کتنے لوگ بھوکے رات کو سوجاتے ہونگے جانے کتنےمعصوم کچرے کے ڈھیر سے اپنا رزق تلاش کرتے یہ سوچتے ہوں گے کہ شاید کبھی وہ مدینے کی ریاست کا دعوے دار ہماری خبر گیری کرے گا۔
دل چیر گئیں آپ کی باتیں۔ اللہ آپ کی عمر میں برکت دے اور آپ کو خوش رکھے۔